پی پی ۔38 سیالکوٹ میں پی ٹی آئی کی جیت، ن لیگ کی شکست۔ اسباب
سیالکوٹ کے صوبائی حلقہ پی پی۔38 سیالکوٹ کے ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کرکے بڑا اپ سیٹ کیا ہے۔ 2013 اور 2018 میں یہ سیٹ ن لیگ نے جیتی تھی۔ یہ صوبائی سیٹ ن لیگ کے ایم پی اے خوش اختر سبحانی کی وفات پر خالی ہوئی تھی۔
ضمنی الیکشن میں مسلسل ناکامی کی بعد تحریک انصاف سیاسی دباؤ کا شکار تھی اور اس کے لیے یہ ضمنی انتخاب جیتنا بہت اہم تھا۔ اس لیے تحریک انصاف نے دستیاب ہر طرح کے وسائل استعمال کیے۔
تحریک انصاف اب حلقے کی سیاست کو سمجھنے لگ گئی ہے، حلقے کی سیاست میں پارٹی ووٹ کا بہت کم حصہ ہوتا ہے، جبکہ دھڑے، برادریوں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ پی پی۔38 میں تحریک انصاف نے برادریوں اور دھڑوں کو بہتر انداز میں ڈیل کیا ہے۔ 2018 کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کے امیدوار خوش اختر سبحانی نے 56 ہزار 617 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ تحریک انصاف کے امیدوار سعید احمد بھلی نے 40 ہزار 530 ووٹ حاصل کیے تھے۔ تیسرے نمبر پر ایک آزاد امیدوار سابق ایم پی اے طاہر ہندالی تھے جنھوں نے 14 ہزار وو ٹ حاصل کیے تھے۔ طاہر ہندالی اس حلقے سے 2008 میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔
اس صوبائی حلقے میں چار بڑے دھڑے ہیں جن کے پاس تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ووٹ ذاتی ووٹ بینک موجود ہے۔ اس کے علاوہ پارٹیوں کا بھی کچھ نہ کچھ ووٹ بینک موجود ہے۔ سب بڑا دھڑا ارمغان سبحانی کا ہے جو اس وقت این اے ۔72 سیالکوٹ ۔1 سے مسلم لیگ ن کے ایم این اے ہیں ۔اس کے بعد بریار فیملی ہے جو ق لیگ سے منسلک ہے اور اس فیملی کے سربراہ چوہدری قیصر بریار ہیں جو اب تحریک انصاف کے ساتھ منسلک ہیں۔ اس فیملی سے 2002 میں چوہدری انصر اقبال بریار ق لیگ کے ٹکٹ پر ایم پی اے منتخب ہوچکے ہیں۔ تیسرا دھڑا طاہر ہندالی کا ہے اور چوتھا بڑا دھڑا سعید بھلی کا ہے۔ اس کے علاوہ مشیر وزیراعلیٰ پنجاب فردوس عاشق اعوان بھی اسی حلقہ سے الیکشن میں حصہ لیتی ہیں اور ان کا بھی کافی اثرورسوخ ہے۔ جہاں تک پارٹی ووٹ بینک کی بات کی جائے تو یہاں ن لیگ کا ووٹ بینک اچھا خاصہ ہے اور اب تحریک انصاف کا بھی کچھ ووٹ بینک بن چکا ہے۔
تحریک انصاف نے اس دفعہ یہاں ٹکٹ چوہدری قیصر بریار کو دیا تھا اور یہ ٹکٹ چوہدری برادران کی سفارش پر دیا گیا تھا۔ جس پر سعید بھلی جوکہ اس حلقہ سے تحریک انصاف کا سابقہ ٹکٹ ہولڈر تھا نے کچھ اعتراض کیا لیکن تحریک انصاف نے اس کے دھڑے کے بہت سے لوگوں کو اکاموڈیٹ کرنے کے ساتھ کچھ مستقبل کے حوالے سے وعدے کرکے راضی کرلیا۔ چوہدری قیصر بریار کے کاغذات نامزدگی دوہری شہریت کی وجہ سے مسترد ہوگئے اور ٹکٹ ان کے قریبی رشتہ دار احسن سلیم بریار کو مل گیا جو کہ کورنگ امیدوار تھا ۔ احسن سلیم کے والد سلیم بریار سیالکوٹ چیمبر آف کامرس کے صدر ہیں اور ٹالون گروپ آف انڈسٹریز کے مالک ہیں۔ ان کا شمار پاکستان بڑے صنعت کاروں میں ہوتا ہے۔
طاہر ہندالی جو کہ اس حلقے سے سابق ایم پی اے اور 15 ہزار دھڑے کے ووٹ کے مالک ہیں اس کو وزیراعلیٰ پنجاب کا کوآرڈینیٹر مقرر کے تحریک انصاف میں شامل کر لیاگیا۔
وزیراعلیٰ پنجاب کے چیف پرنسپل سیکرٹری طاہر خورشید تحریک انصاف کے کامیاب امیدوار احسن سلیم بریار کے سسر ہیں۔ اس طرح حکومتی وسائل مشیر وزیراعلیٰ پنجاب فردوس عاشق اعوان، طاہرہندالی ایڈووکیٹ کوآرڈینیٹر وزیراعلیٰ پنجاب، طاہر خورشید چیف پرنسپل سیکرٹری وزیراعلی پنجاب اور عثمان ڈار مشیر وزیراعظم پاکستان کی صورت میں حلقے میں اکٹھے ہو گئے ہیں۔ دوسری طرف ن لیگ اپوزیشن میں ہونے کی وجہ ایم این اے ارمغان سبحانی کو ووٹر کے مسائل کو حل کروانے میں مسائل کا سامنا ہے۔ اس کے باوجود مسلم لیگ ن نے اور ارمغان سبحانی نے اپنا ووٹ بینک سنبھال کر رکھا ہوا ہے تو یہ بھی بڑی کامیابی ہے۔ تمام ترقیاتی فنڈ حلقے میں فردوس عاشق اعوان کے توسط سےخرچ ہورہے ہیں۔سیالکوٹ میں تحریک انصاف کو 2018 میں بری طرح شکست ہوئی تھی لیکن اس کے باوجود سیالکوٹ کو ایک وفاقی وزیر اور ایک صوبائی وزیرِ کے برابر کے عہدے دے رکھے ہیں جن کا مقصد یہی ہے کہ عثمان ڈار اور فردوس عاشق اعوان حکومتی وسائل کو استعمال کرکے اپنے آپ کو مضبوط کرسکیں کیونکہ دھڑے کے ووٹ کے لیے اقتدار میں بہت کشش ہوتی ہے۔ تحریک انصاف نے اس حلقہ میں خاموشی سے مہم چلائی ہے اور ماضی کے انتخابات کی طرح بڑے بڑے دعوے نہیں کیے اور نہ ہی پی ٹی آئی کے حوالے کو زیادہ اجاگر کیا جس سے مہنگائی، خراب حکومتی کارکردگی کے حوالہ سے پایا جانے والا عوامی غصہ کا رخ ان کے امیدوار کی طرف نہیں ہوا۔
دوسری مسلم لیگ ن اپنے کارکنوں کو دوسرے ضمنی الیکشنوں کی طرح چارج نہیں کرسکی ۔ جس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن جو سامنے آرہی ہیں ان میں پہلی چیز یہ تھی کہ مسلم لیگ ن بہت پراعتماد تھی اور وہ اس سیٹ پر کامیابی یقینی سمجھ رہی تھی جس کی وجہ سے زیادہ محنت نہیں کی گئی۔ آزاد کشمیر الیکشن میں شکست کی وجہ سے بھی کارکنوں میں مایوسی پیدا ہوئی ہے اور تحریک انصاف کے کارکنوں کو حوصلہ ملا ہے۔ ایک اور اہم فیکٹر جو ووٹر پر تو شاید اثرانداز نہیں ہوا لیکن مسلم لیگ ن کے کارکنوں پر ضرور ہوا ہے۔ میاں محمد نوازشریف کی افغانستان کے سلامتی کے مشیر سے ملاقات اور مسلم لیگ ن کے ایم این اے اور ن لیگ کے حلقہ پی پی 38 کے امیدوار کے بڑے بھائی ارمغان سبحانی نے ایک ٹی وی پروگرام میں ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ وہ عمران خان کے بجائے مودی کی تصویر کمرے میں لگانے کو ترجیح دیں گے۔ مخالفین نے ان دونوں چیزوں کو اپنے ہر جلسہ میں بطور پروپیگنڈہ استعمال کیا جس کا مسلم لیگ ن کے کسی کارکن کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ میاں محمد نوازشریف نے 2018 کے الیکشن مہم کے دوران ممبئی حملوں کے حوالہ سے ایک متنازعہ بیان دیا تھا اور آزاد کشمیر الیکشن کی مہم کے دوران افغان مشیر جو کہ پاکستان کے حوالہ سے ایک قابل نفرت شخصیت ہے سے ملاقات کرکے خوامخواہ ایک ایشو مخالفین کے حوالے کردیا گیا جس کا انھوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ سیالکوٹ پی پی ۔38 پولنگ ڈے پر کسی دھاندلی کی شکایت موصول نہیں ہوئی لیکن پولنگ سے پہلے انتظامیہ اور حکومتی وسائل کا بے دریغ استعمال کرکے دھڑوں کو اکٹھا کیا گیا۔ یہ الیکشن عملی طور ریاست اور ن لیگ کے درمیان تھا ۔ن لیگ شکست کے باوجود اپنا پاپولر ووٹ بینک برقرار رکھنے میں کامیاب ہے لیکن مسائل دھڑوں کی وجہ سے ہیں۔ جیسے اقتدار رخصت ہوگا تو تحریک انصاف کی طرف سے دھڑوں کے کنٹرول کی صلاحیت متاثر ہوگی جس کا نتائج پر بھی اثر ہوگا۔
0 تبصرے