کیا موجودہ طالبان ملا عمر کے طالبان جیسے ہیں؟
گذشتہ روز سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے کہ کچھ لوگوں نے سفید جھنڈے اٹھائے ہوئے ہیں اور طالبان کے حق میں نعرے بلند کر رہے ہیں۔ بعد میں میڈیا پر اطلاعات آئی ہیں کہ یہ ویڈیو پشاور کے کسی علاقے کی ہے۔
افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی کی مسلسل خبریں آرہی ہیں۔ ان خبروں پر پاکستان میں ایک خاص مذھبی طبقہ مسرت کا اظہار کر رہا ہے اور ان کے خیال میں افغانستان میں ملا عمر کے طالبان دوبارہ اقتدار میں آرہے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ملا عمر کے طالبان ہیں یا کوئی اور طالبان ہیں۔ملا عمر کے طالبان زیادہ تر پاکستانی مدارس کے فارغ التحصیل تھے جن میں سے زیادہ تر کا تعلق جنوبی افغانستان کے پختون علاقے سے تھا۔ جن کے بارے ایک عمومی تائثر تھا کہ ان کی باگ ڈور پاکستانی ایجنسی آئی ایس آئی کے ہاتھ ہے اور ان کی زیادہ تر مالی ضروریات سعودی انٹیلیجنس ایجنسی پوری کرتی ہے۔ اس تائثر کو تقویت اس بات سے بھی ملتی ہے کہ امارات اسلامیہ افغانستان طالبان کی حکومت کو صرف پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ امارات نے تسلیم کیا تھا۔پاکستان مخالف افغان ملا عمر کے طالبان کے بھی سخت مخالف تھے۔ملا عمر کے طالبان دیوبندی اسلام کے سخت ترین پیروکار تھے اور انھوں نے اسے اپنی تشریح اور اپنے طریقے سے نافذ کرنے کی کوشش کی۔جب کہ شمالی افغانستان کے لوگ سخت گیر اسلام کے پیروکار نہیں۔ملا عمر کے طالبان کے اندر لچک بلکل بھی نہیں تھی۔ پاکستان نے بدھا کے مجسموں کو توپ سے اڑانے کے فیصلے سے روکنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے پاکستان کی پرواہ نہ کی۔ کچھ عرصہ بعد طالبان نے پاکستان کے پختون قبائلی علاقوں میں اپنا اثرورسوخ بڑھانا شروع کردیا۔ انھیں اس بات کا ادراک تک نہ ہوسکا کہ ہماری گاڑیوں میں ڈلنے والا پٹرول پاکستان سے آتا ہے اور ہم اسی پاکستان کے خلاف جارہے ہیں۔ 9/11 کے بعد جب پاکستان نےعرب جنگجوؤں کو افغانستان سے نکالنے اور اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے کا مشورہ دیا تو طالبان نے پاکستان کو مکمل نظرانداز کرتے ہوئے اسامہ بن لادن اور عرب جنگجوؤں کو پناہ دینے کا اعلان کردیا۔ ملا عمر کے طالبان نے قبضہ تو پورے افغانستان پر کرلیا تھا لیکن شمالی افغانستان کے لیے وہ مکمل اجنبی تھے۔ جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو طالبان کی حکومت خود بخود گر گئی اور بیشتر علاقوں میں لوگ طالبان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ طالبان کے لیے پہاڑوں میں جانے کا علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ بحرحال افغانوں کی غالب اکثریت ملا عمر کے طالبان کے سخت اسلام کے نفاذ کو دل سے تسلیم نہیں کرتے تھے۔ لوگوں سے زبردستی داڑھیاں تو رکھوا لی گئی تھی لیکن جس طالبان کابل سے نکلے تھے تو حجام کئی دن تک مسلسل لوگوں کی حجامتیں بناتے رہے تھے۔موجودہ طالبان کی قیادت مکمل طور پر افغانی ہے, اب طالبان میں ازبک بھی شامل ہیں اور ہزارہ لوگ بھی شامل ہیں۔طالبان کی یہ قیادت 20 سال کی مشکلات اور جنگ کے دوران مقامی سطح سے اپنی قابلیت سے اوپر آئی ہے۔ موجودہ طالبان کسی ایجنسی کی پیداوار نہیں بلکہ اپنی مرضی سے تحریک طالبان کا حصہ ہیں۔ یہ طالبان جانتے ہیں کہ اسلحے کے زور پر علاقے پر قبضہ تو کیا جاسکتا ہے لیکن وہاں کے لوگوں کو سہولیات بھی پہنچانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ طالبان انڈیا سے بھی مذاکرات کرتے اور پاکستان کے ساتھ بھی بیٹھتے ہیں۔ یہ طالبان ترکی، ایران، قطر اور چین سے بھی رابطہ رکھتے ہیں ۔ یہ طالبان اپنا دفتر قطر جیسے غیر سیاسی ملک میں بناتے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ موجودہ طالبان کو یہ معلوم کہ دوسرے ممالک کے مفادات کا خیال کیسے رکھنا ہے۔ یہ طالبان جنگ بھی اتنی لڑتے ہیں جتنی خود ان کو بھی ہضم ہو جائے اور افغان حکومت کے ساتھ دنیا بھی برداشت کر لے۔ یہ طالبان جانتے ہیں کہ نظام حکومت چلانے کے لیے پیسے کی ضرورت ہے اور پیسہ امداد کے ساتھ عالمی اداروں سے قرض پر ملتا ہے جس پر سود بھی دینا ہوتا ہے۔ اگر یہ طالبان اقتدار میں آگئے تو یہ مذھبی کے ساتھ سیاسی طالبان بھی ہونگے۔ ان طالبان کو یہ تجربہ حاصل ہوچکا ہے کہ اگر ایک دفعہ اقتدار چلا جائے تو پھر 20 سال جدوجہد کرنی پڑتی ہے ۔ امریکہ اور عالمی طاقتوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ افغان طالبان کونسا نظام لاتے ہیں بلکہ اس کو اس بات سے غرض ہے کہ کوئی ان کے مفاد کے خلاف تو کام نہیں کررہا چاہے وہ صدام حسین ہو ، کرنل قذافی ہو یا اسامہ بن لادن۔ امریکہ اپنے مفادات کو یقینی بنا کر افغانستان سے جارہا ہے۔
موجودہ طالبان اگر اقتدار میں آگئے تو یہ بلکل ملا عمر کے طالبان سے مختلف ہو سکتے ہیں۔یہ انڈین سرمائے سے افغانستان کی تعمیر بھی کریں گے اور پاکستانی بندرگاہوں کے ذریعے دنیا سے تجارت بھی کریں گے۔ موجودہ طالبان نے جن اضلاع پر قبضہ کیا ہے وہاں عوامی زندگی میں کوئی خلل نہیں ڈالا۔ ابھی تک یہ نہ تو 10 سال سے بڑی بچیوں کو سکول جانے سے روک رہے ہیں اور نہ مکمل برقعے کا حکم دے رہے ہیں۔ موجودہ طالبان بار بار غیر فوجی غیر ملکیوں کو افغانستان میں رہنے کی اپیل کر رہے ہیں۔ طالبان یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے لوگوں غیر ملکی پیشہ ور ماہرین کی ضرورت ہے۔
یہ بات بھی نہیں کہ طالبان نے اسلامی نظریہ ترک کر دیا ہے اور وہ ایک عام مسلح سیاسی گروہ کی طرح صرف اقتدار چاہتے ہیں۔ موجودہ طالبان اپنی اسلامی سیاسی نظریات پر اسی طرح قائم جیسے ملا عمر کے وقت تھے۔ لیکن اب طالبان نے حکمت عملی تبدیل کر دی ہے۔ اب وہ لوگوں پر زبردستی نہیں کرتے اور نہ لوگوں سے زبردستی بیگار لیتے ہیں۔ موجودہ طالبان کے زیر اثر علاقوں میں باقاعدہ حکومتی نظام کام کر رہا ہے لیکن اب نہ تو سرعام پھانسی کے فوٹو منظر عام پر آتے ہیں اور نہ ہی کسی عورت کو سنگسار کرنے کے منظر ہیں۔
یہ طالبان اپنے علاقوں سے ٹیکس بھی اکٹھا کرتے ہیں، بجلی کے بل بھی جمع کرتے ہیں تو ساتھ بجلی کا کارخانہ بھی چلاتے ہیں، سڑکیں بھی بنا رہے ہیں۔ ملا عمر کے طالبان کے لیے اسلامی نظریہ اولیت رکھتا تھا ،وہ نظریہ کو ہی اقتدار کا جواز سمجھتے تھے۔ لیکن موجودہ طالبان نے شاید یہ سیکھ لیا ہے کہ نظریہ اقتدار تو دلا دیتا ہے لیکن اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے دنیاوی ذرائع اپنانے بھی برحال ضروری ہوتے ہیں۔
بحرحال یہ طالبان ملا عمر والے طالبان سے کافی مختلف ہیں، یہ وہ طالبان تو ہرگز نہیں جن طالبان کو پاکستان کا ایک مذھبی طبقہ اپنا ماڈل سمجھتا ہے۔
0 تبصرے