Header Ads Widget

Responsive Advertisement

آزاد کشمیر اور گنڈا پور

 آزاد کشمیر اور گنڈا پور

محبت اور جنگ میں سب کچھ  جائز ہے یہ تو  ہم سب نے سنا ہے لیکن اب سیاست دانوں نے سیاست کو بھی محبت اور جنگ کے ساتھ شامل کردیا ہے، اب کہا جارہا ہے کہ سیاست میں بھی سب کچھ جائز ہے۔سیاست کی جنگ میں فضول اور بے بنیاد الزامات میں لوگوں کو الجھانا بہت آسان ہے  لہذا وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور نے فیصلہ کیا کہ وہ سیاست کی جنگ میں انھی بے بنیاد الزامات کا استعمال کرے گا۔  انتخابی جلسے میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو "غدار" کہنا کوئی مذاق نہیں تھا۔ ایک سابق اور مرحوم وزیر اعظم  جو پاکستان کی سب سے قدیم سیاسی خاندان کا سربراہ بھی تھا، اس کو اب سیاست اور سیاسی الزامات کی دلدل میں گھسیٹنے سے وافاقی وزیرعلی امین گنڈا پور پتا نہیں کون سا مقصد حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ذولفقار علی بھٹو کو غدار کہنے اور نواز شریف کو ڈاکو کا خطاب دینے کا مقصد تب سمجھ آیا جب اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں گنڈا پور کو آڑے ہاتھوں لیا گیا اور عمران خان اور پی ٹی آئی پر الزام لگایا کہ ان کا سیاسی پارٹیوں کے بارے  رویہ قومی سلامتی کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے۔  گنڈا پور عمران خان کا اچھا بچہ بننے کے لیے حزب مخالف کے قائدین پر کیچڑ اچھالتا ہے۔
صرف عمران خان کی خوشنودی اور قرب حاصل کرنے کے لیے گنڈا پور نے ذاتی طور پر ذولفقار علی بھٹو اور نواز شریف پر سنگین تنقید حالانکہ انتخابی حوالہ سے اس کا نقصان اس امیدوار  کو بھی ہوا جس نے  گنڈا پور کا کروایا تھا اور پارٹی کو بھی ہوا۔ شاید چند لوگوں کو بھٹو مرحوم اور نواز شریف پر الزامی تنقید پسند آئی ہوجن میں عمران خان بھی شامل ہے لیکن کشمیریوں کی اکثریت اور میڈیا نے اسے ناپسند کیا ہے۔


میاں نواز شریف پر پچھلے  دس سال سے 
تواتر کے ساتھ پی ٹی آئی یہی الزامات دہراتی آرہی ہے۔ ایک جلسے میں گنڈا پور  کی طرف سے  الزامات دھرانے سے نواز شریف کی ذات کو تو کوئی فرق نہیں پڑنا تھا اور نہ پڑا ہے  لیکن گنڈا پور کو ضرور پڑا ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ ہر بات موقع کی مناسبت سے اچھی لگتی ہے ۔ ایک ایسی جگہ جہاں مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک مسلمہ  زیادہ ہے وہاں مسلم لیگ کے قائد پر سخت تنقید آبیل مجھے مار کے مترادف ہے۔ لٰہذا اگلے دن گنڈا پور پر انڈے اور ٹماٹر بھی  پھینکے گئے اور ساتھ آزاد کشمیر سے انتخابات تک بے دخل بھی ہو گئے۔ 
گویا گنڈاپور نے ذولفقار علی بھٹو اور نواز شریف پر تنقید کرکے دونوں پارٹیوں پر احسان کیا ہے۔ دونوں پارٹیوں کے کارکن اس تنقید کے بعد متحرک ہوگئے ہیں اور پی ٹی آئی کے کارکن دفاعی پوزیشن پر چلے گئے ہیں۔
بدقسمتی سے آزاد کشمیر الیکشن میں ہر طرف سے ایک دوسرے پر الزامات کی بارش ہورہی ہے۔ آزاد کشمیر کے لوگوں کے دکھوں اور مسائل پر بات کرنے کے بجائے غدار،  چور،  ڈاکو،  کشمیر فروش اور سلیکٹڈ کے نعرے گونج رہے ہیں ۔ ان الزامی نعروں کی ابتدا گنڈا پور نے کی ہے اور عمران خان کی آشیرباد سے  شروع کی تھی۔ پچھلے سال گلگت بلتستان میں مسٹر گنڈا پور نے مریم نواز کے بارے کہا تھا کہ وہ عوام کے ٹیکس کے پیسےسے اپنے چہرے کو خوبصورت بنانے کے پلاسٹک سرجری کراتی رہی ہے۔ بلاول بھٹو کے بارے انھوں نے کہا تھا کہ میں کہتا ہوں کہ بلاول پہلے مرد تو بن۔ ان باتوں پر بھی گنڈاپور کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ جس شخص کی بدزبانی تسلیم شدہ ہو،   ایسے شخص کو الیکشن مہم کے لیے بھیجنا یقیناً عمران خان کا فیصلہ ہے۔ 
چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے بیدخلی کے حکم کے باوجود مسٹر گنڈا پور کا عمران خان کے جلسے میں سٹیج پر موجود ہونا اس بات کا پیغام تھا کہ کشمیر ہمار مقبوضہ ہے  اور اس زیادہ مضحکہ خیز بات یہ تھی کہ گنڈا پور نے جلسے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے ہمیں اداروں کا احترام کرنا سکھایا ہے  اور ہم اداروں کا  احترام کرتے ہیں۔ لوگ  حیرانی سے دیکھ رہے تھے کہ یہ کیسا احترام ہے کہ ایک ادارے کے سربراہ نے گنڈا پور کو کشمیر سے نکل جانے کا حکم دیا ہے  لیکن وہ صریحاً حکم عدولی کر رہا ہے اور وہ عمران خان  جو اداروں کے تقدس اور احترام کے بڑے بڑے دعوے کرتا ہے  اس نے گنڈا پور کو ساتھ سٹیج پر بٹھایا ہوا تھا۔
بدقسمتی سے پاکستان میں غداری کے القاب دینے کی روائت پرانی ہے ۔ فوجی آمریتوں نے لفظ غداری کو حکومت پر اپنے ناجائز قبضے کو بچانے کے لیے محب وطن سیاسی قوتوں کے خلاف استعمال کیا۔ پہلی غدار شخصیت بانی پاکستان کی ہمشیرہ،  تحریک پاکستان کی صف اول کی راہنما محترمہ فاطمہ جناح قرار پائی ۔ اس کے بعد غداروں کی ایک لمبی فہرست ہے لیکن تاریخ نے غداروں اور محب وطنوں میں فرق کردیا ہے۔ 
اس کے بعد بھی  یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ سیاست جو سنجیدگی، بردباری،تحمل اور برداشت کا نام تھی، آج اس میں جھوٹ، فریب،  الزام تراشی سمیت سب کچھ جائز قرار دیا جارہا ہے۔  آمریت کے تو کچھ مقاصد ہوتے تھے لیکن آج 2021 میں تو  عمران خان کی جمہوری حکومت ہے۔ اس میں شک نہیں کہ سیاست کو گندہ کرنے میں عمران خان یا تحریک انصاف اکیلی نہیں ہے،  دوسری پارٹیاں بھی اپنا پورا پورا حصہ ڈال رہی ہیں۔ لیکن عمران خان اور تحریک انصاف اس گندے عمل کو بطور سوچی سمجھی پالیسی کے طور پر چلا رہے ہیں۔
آزاد کشمیر کے عوام نے پہلی مرتبہ ایک باشعور قوم کی طرح گنڈا پور کی الزامی سیاست پر شدید ردعمل دیا ہے اور عمران خان کے دو جلسے عوام نے ناکام بنا دیے ہیں اور تحریک انصاف جو وزیراعظم کے امیدوار فائنل کر رہی تھی اب لگتا ہے کہ اپوزیشن لیڈر کے نام پر غور شروع کردے گی۔ گنڈا پور کی الزامی سیاست جو دراصل عمران خان کی سیاست ہے اس پر کشمیری عوام کا شدید ردعمل پاکستان کی عوام کے لیے بھی راہنمائی کا سبب بن سکتا ہے۔ بدقسمتی سے باقی پاکستان کی عوام اس گندی اور الزامی سیاست کو قبول کر چکی ہے ۔ 
لیکن اب یہ بات ہماری سول سوسائٹی، تھنک ٹینکس، اساتذہ، مذہبی راہنما، علمائے دین، اہلِ صحافت اور خاص کر سیاسی قائدین کے واسطے لمحۂ فکریہ ہونا چاہیےکہ آخر ہم کب تک اس اخلاقی پستی اور ذہنی  گراوٹ کو چند سیاسی مقاصد کے لیے جاری رکھیں گے؟ 
کشمیری عوام کی طرح پاکستانی عوام کو بھی اب اس معاملے میں آگے آنا ہوگا۔ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے