Header Ads Widget

Responsive Advertisement

سیاسی و معاشرتی منافقت



 سیاسی منافقت

کسی بھی معاشرے کی ترقی اور تنزلی ایک ارتقائی عمل ہے۔ یہ ترقی اور تنزلی آہستہ آہستہ وقوع پذیر ہوتی ہے۔ معاشرتی ترقی کا مطلب ہر شخص کو اپنی صلاحیت کے مطابق  کام کرنے کے مواقع حاصل ہوں اور اس کو اپنی صلاحیت  اور کام کا بھرپور طریقے سے معاوضہ ملے۔ ہر شخص کو تحفظ حاصل ہو کہ کوئی اس کے ساتھ دھوکہ فریب نہ کرے اور اس کو کسی بھی قسم کی تکلیف کی صورت میں ازالہ کا یقین ہو۔ معاشرتی ترقی کے حامل معاشرہ یا سوسائٹی میں صاحب اختیار لوگ انسانی معیار اور قدروں کے اعلیٰ معیار اور درجے پر فائز ہوتے ہیں۔ ترقی کا حامل معاشرہ اپنے انتظامی امور ایسے شخص کے سپرد کرتا جس کا اخلاق اور کردار اعلیٰ اور مثالی ہو۔ 
اللہ پاک  کے انبیاء کے جہاں ہزاروں اوصاف ہوتے ہیں وہاں پہلا اور سب سے بڑا وصف یہ ہوتا ہے کہ وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتے ۔ سچائی ان کی وہ خاصیت ہوتی ہے جس کی بنیاد پر ان کی پوری دعوت و تبلیغ کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ 
تاریخ میں مذھبی شخصیات کے علاوہ بھی جتنی نامور شخصیات گذری ہیں ان میں سچائی، صاف گوئی کی قدر مشترک ہے۔ اور وہ اپنی سچائی اور اعلیٰ اقدار ہی کی بدولت معاشرے پر اثر انداز ہوئے ۔ 
ترقی یافتہ معاشرے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ لوگ ایماندار ہیں،  ایک دوسرے کو دھوکہ نہیں دیتے،   اپنے تمام معاملات انسانی اصولوں اور قدروں کے مطابق سرانجام دیتے ہیں اور اگر کوئی شخص مروجہ انسانی اور معاشرتی اصولوں سے روگردانی کرتا ہے تو اس کا محاسبہ کیا جاتا ہے۔ 
تنزلی کے شکار معاشرے کی نمایاں خصوصیات میں لوگ کا ایک دوسرے کو دھوکہ دینا،  بے ایمانی،  نسلی حسبی مالی تعصب وغیرہ شامل ہیں۔ تنزلی کے شکار معاشرے کا سب سے تاریک پہلو یہ ہے کہ صاحب اختیار لوگ مناقق، فاسق ،فاجر اور جھوٹے لوگ ہوتے ہیں ۔
ہمارا ملک اور معاشرہ اس وقت تنزلی کی اتھاہ گہرائیوں میں جا چکا ہے۔ منافقت معاشرے میں اس قدر عام ہے کہ مسجدیں نمازیوں سے بھری ہوئی ہیں،  اکثریت دوکانداروں نے سنت رسول رکھی ہوگی اور سر پر صاف ستھری ٹوپی ہوگی لیکن پورے بازار میں خالص چیز کسی بھی دوکاندار کے پاس نہیں ملے گے۔ ایسے ہی ہمارے حکمران اور سیاسی طبقہ ہے۔ جو جتنا زیادہ جھوٹ بولتا ہے، دھوکہ دیتا ہے وہ اتنا بڑا سیاست دان اور عزت دار ہے۔  جن لوگوں نے معاشرے کی راہنمائی کرنی ہے اور معاشرے کے اندر مثبت قدروں کو رائج کرنا ہے ان کا اخلاقی معیار یقیناً اعلیٰ ہوگا تو مثبت تبدیلی وقوع پذیر ہوگی۔ لیکن ہمارے راہنما چاہے مذھبی ہوں یا  دنیاوی، منافقت کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز ہیں ۔ ان کے بیانات اور منشور کچھ ہوتے ہیں اور عمل کچھ ہوتے ہیں۔ یہ سرعام جلسہ میں کھڑے ہوکر لاکھوں لوگوں سے جھوٹ بولتے ہیں اور بیمار معاشرے کے لوگ تالیاں بجاتے ہیں۔ ہر جماعت کا منشور ہے کہ جیسے وہ اقتدار میں آئے تو خزانہ کا منہ غریب کے لیے کھول دیا جائے گا۔ جیسے اقتدار ملتا ہے تو خزانہ کا منہ واقعی غریب کے لیے کھل جاتا ہے لیکن غریب عوام سے چھین خزانہ بھرنے کے لیے۔ اقتدار سے پہلے خزانہ خرچ کرنا خاصیت تھی اور اقتدار کے بعد خزانہ بھرنا خاصیت قرارپاتی ہے۔ اقتدار سے پہلے ہر سیاسی شخصیت اور پارٹی کا ہندوستان اور امریکہ دشمن نمبر 1 ہوتے ہیں لیکن اقتدار کے بعد ان سے بہتر تعلقات ترجیع ہوتے ہیں۔ اقتدار سے پہلے 50 لاکھ گھر غریبوں کو دینے کا منشور ہوتا ہے اور اقتدار کے بعد ناجائز تجاوزات کے خلاف آپریشن کے نام پر کروڑوں گھر گرائے جاتے ہیں۔ اقتدار سے پہلے ایک کروڑ نئی نوکریوں کی بات کی جاتی ہے اور اقتدار ملنے کے بعد  پرانے نوکریوں والے بھی خزانے پر بوجھ لگتے ہیں۔اقتدار سے پہلے  آزادی اظہار اولین ترجیح ہوتی ہے لیکن اقتدار ملنے کے بعد  لوگوں کے منہ بند کرنا اولین ترجیح بن جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ اقتدار سے پہلے ہمارے سیاست دان اور پارٹیاں  جو وعدے اور منشور پیش کرتے ہیں۔ اقتدار ملتے ہی اپنی منافقانہ فطرت ، بیمار ذھنیت اور دھوکہ کی عادت کی بدولت اس کے الٹ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ 
جس معاشرے  کے افراد کا اپنے رہبر کے انتخاب کا معیار اس میں منافقت،  چاپلوسی،  زبان درازی،  دھوکہ دہی،  اپنی بات سے پھر  جانے کی خاصیت ہو،  اس معاشرے  میں معصوم بچوں کو کیمیکل ملا دودھ ملے گا،  مرچ مٹی ملی ہوگی،  دوائی دوا کے بجائے زہر ہوگا،  ڈاکٹر مسیحا کے بجائے قصائی ہوگا،  دین کا معلم قوم لوط کے فعل کا عادی ہوگا۔ غنڈہ سب سے معتبر ہوگا۔ فاحشہ عورت سب سے زیادہ عزت دار ہوگی۔ عزت کا معیار تقویٰ کے بجائے دولت ہوگی۔ 
ہم سب چاہتے ہیں کہ ہمیں جانی مالی تحفظ حاصل ہو۔ کسی ناانصافی کی صورت میں فوری انصاف حاصل ہو،  معاشی آزادی حاصل ہو،  روزگار کے مواقع میسر ہو،  صحت کی بہترین سہولیات میسر ہوں،  تعلیم کے مواقع یکساں ہوں،   مجھے میرے پیسے کے بدلے خالص اور صاف ستھری چیز ملے تو سب سے پہلے ہمیں سیاسی منافقت ختم کرنی ہوگی ۔ معاشرہ میں تبدیلی کا بیج ایک اچھا رہبر ہی بوسکتا ہے۔ ہمیں اچھے رہبر کا انتخاب کرنا ہوگا جو اچھائی کے مروجہ اصولوں  ایمانداری، صداقت، شرافت، اصول پرستی،  انصاف، بہادری، رحمدلی جیسی خصوصیات کا حامل ہو۔ 
آج مغربی معاشرہ  جس کو ہمارے منافق رہبر زوال پزیر معاشرہ کہتے ہیں وہاں آپ کو جھوٹ، دھوکہ،  ملاوٹ جیسی چیزیں نہیں ملیں گے۔ ان کی صحت و صفائی کی حالت ہمارے لیے معیار کا درجہ رکھتی ہیں۔ جن کو ہم اور ہمارے منافق رہبر عوام کے سامنے گالیاں دیتے ہیں لیکن سب اپنے جائیدادیں اور بچے وہیں رکھتے ہیں ۔ غریب کے بچے کو ان کے خلاف جہاد کے لیے بھیجتے ہیں اور اپنے بچوں کو ان سے تعلیم  لینے کے لیے بھیجتے ہیں۔ 
ہماری عوام کی منافقت کا یہ عالم ہے کہ ہم قیادت ایماندار چاہتے ہیں،  ایسی قیادت چاہتے ہیں جس میں اعلیٰ اوصاف موجود ہوں لیکن جب کبھی ہمیں قیادت کے انتخاب کا موقع مل جائے تو ہمارا انتخاب وہ شخص ہوتا ہے جس کے اندر سب سے زیادہ عیب ہوں ۔ ہمارے نزدیک رہبری کے لیے بس ایک ہی خوبی ہے کہ اس کے پاس  روپیہ پیسہ ہونا چاہیے،  چاہیے ذریعہ غریب عوام کی زمینوں پر قبضہ ہو یا نشہ کی سمگلنگ۔ منافقت ہمھارا کلچر اور عادت بن چکی ہے اور  اس منافقت کہ وجہ سے یہاں تو ذلیل ہیں لیکن اللہ کے حضور بھی ذلیل ہونگے۔
اللہ پاک نے معاشرے میں مثبت تبدیلی کے  اصول طے کردیے ہیں۔ اللہ پاک کے پیارے نبی کریم صلی علیہ وسلم  نے جب وحی کے بعد پہلی جو دعوت دی تھی تو موقع پر موجود لوگوں سے پہلا سوال یہ کیا تھا کہ لوگوں ! آپ نے مجھے زندگی میں کیسا پایا ہے تو سب نے یک زبان ہوکر کہا کہ ہم نے آپ کو ہمیشہ صادق اور آمین  پایا ہے۔ دو اصول واضح ہوتے ہیں کہ تبدیلی کے لیے رہبر کا ہونا ضروری ہے اور پھر رہبر کا صادق اور آمین ہونا بھی ضروری ہے۔ اللہ پاک کے نبی نے اللہ کے حکم سے مدینہ میں پہلے صرف اخلاق کی تربیت دی اور پھر عبادت کی تعلیم دی جو دراصل اخلاق ہی کی عملی مشق ہے ۔ 

آج ہماری بے سکون،  بے اطمینانی، معاشی اور معاشرتی عدم توازن کا سبب ہمارے اعمال اور ہماری منتخب منافق قیادت ہے۔  

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے