ملک میں اسلامی نظام کے قیام ، امن و سلامتی کے ہر مواقع کا استعمال امارت اسلامیہ کرے گی۔"طالبان راہنما
![]() |
Taliban supreme commander Hibat Ullah akhunzada. File Photo |
طالبان کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان تنازعہ پر سیاسی تصفیہ کے پرزور حمایت کرتے ہیں'
طالبان نے جنگ زدہ ملک میں سخت کارروائیوں کا آغاز کرنے کے باوجود افغان طالبان کے رہنما ہیبت اللہ اخندزادہ نے اتوار کے روز کہا ہے کہ وہ افغانستان میں تنازعہ کے لئے سیاسی حل کے بھرپور حامی ہیں۔
یہ اعلان اس وقت سامنے آیا ہے جب ہفتے کے آخر میں افغان حکومت اور طالبان دوحہ میں مذاکرات کے ایک نئے دور کے لئے بیٹھے تھے ، اور اس امید کو بڑھاتے رہے ہیں کہ طویل عرصے سے تعطل کا شکار مذاکرات کی بحالی کا سلسلہ جاری ہے۔
اخوندزادہ نے اگلے ہفتے عیدالاضحی سے قبل جاری ہونے والے ایک پیغام میں کہا ،فوجی کامیابیوں اور بہتر کنٹرول کے باوجود ، امارت اسلامیہ پوری طرح سے ملک میں سیاسی تصفیے کی حمایت کرتی ہے۔"
انہوں نے مزید کہا ، "ملک میں اسلامی نظام کے قیام ، امن و سلامتی کے ہر مواقع کا استعمال امارت اسلامیہ کرے گی۔"
کئی مہینوں سے ، دونوں فریق قطری دارالحکومت میں ایک دوسرے سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں ، لیکن جنگ کے میدان میں طالبان کی کامیابی کی وجہ سے ان مذاکرات سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوسکا۔ اتوار کو دونوں فریقوں کے درمیان دوبارہ بات چیت ہونے والی ہے۔
طالبان رہنما نے کہا کہ ان کا گروپ جنگ کے خاتمے کے لئے پرعزم ہے لیکن انہوں نے وقت ضائع کرنےکے لئے اپوزیشن جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے مزید کہا ، "ہمارا پیغام ہے کہ غیر ملکیوں پر بھروسہ کرنے کی بجائے آئیے اپنے آپس میں اپنے معاملات حل کریں اور اپنے وطن کو موجودہ بحران سے بچائیں۔"
طالبان جنگجوؤں نے افغانستان سے امریکی اور دیگر غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے آخری مراحل کا فائدہ اٹھایا ہے اور ملک میں طاقت کے توازن کو واضع طور پر اپنے حق میں کر لیا ہے۔
طالبان اب ملک کے 400 اضلاع میں 280 کے قریب ، متعدد اہم سرحدی گزرگاہوں پرقبضہ کرچکے ہیں۔اور انھوں نے اہم صوبائی دارالحکومتوں کا محاصرہ کرلیا ہے۔
طالبان طویل عرصے سے متحد دکھائی دے رہے ہیں ، جو ایک موثر کمانڈ اور کنٹرول کے تحت کام کرتے ہیں ، اور تنظیم کی قیادت میں باہمی اختلاف کی افواہوں کے باوجود پیچیدہ فوجی مہم چلا رہے ہیں۔
یہ سوالات ابھی باقی ہیں کہ طالبان کے رہنماؤں کا زمین پر کمانڈروں پر کتنا کنٹرول ہے اور اگر سیاسی طالبان راہنما کسی معاہدے پر دستخط کرتے ہیں تو وہ محاذ جنگ کے طالبان کمانڈروں سے کسی طرح ان معاہدوں کی پاسداری کروائیں گے۔
طالبان سربراہ کی طرف سے عید کے دنوں میں کسی جنگ بندی کا اعلان نہیں کیا گیا جوکہ متوقع تھا اور پہلے روائت بھی رہی ہے۔
گذشتہ برسوں کے دوران طالبان نے اسلامی تعطیلات کے دوران ایک مختصر یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔
اس سے پہلے طالبان نے 7 ہزار قیدیوں کی رہائی کے بدلے 3 ماہ عارضی جنگ بندی کی پیش کش کی ہے۔ تاہم طالبان پر تنقید کی جاتی ہےکہ طالبان جنگ بندی کے دوران اگلی جنگی حکمت عملی تیاری کرتے ہیں۔
11 ستمبر 2001 کے حملوں کے نتیجے میں شروع کیے گئے حملوں کے بعد ، امریکہ کی سربراہی میں فوجی اتحاد افغانستان میں تقریبا 20 سال سے موجود تھا۔
یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ اگر کابل حکومت کو اہم فضائی مدد فراہم نہ کی گئی تو حکومت گر سکتی ہے یا شدید خانہ جنگی شروع ہو جائے گی۔ دونوں صورتوں میں افغانستان میں طالبان حکومت قائم ہو سکتی ہے جس کے دورس عالمی اثرات ہونگے۔
0 تبصرے