Header Ads Widget

Responsive Advertisement

آزاد کشمیر الیکشن ۔ تجزیہ

 آزاد کشمیر الیکشن 


عید کے بعد 25 جولائی کو آزاد کشمیر میں الیکشن کا انعقاد ہورہا ہے ۔ 

انتخابات آزادکشمیر کے 33 عام حلقوں اور جموں و کشمیر کے مہاجرین کے 12 حلقوں میں ہوں گے۔ 
 آزاد جموں و کشمیر کے تقریباً 28لاکھ 87 ہزار سے زیادہ افراد اپنے ووٹ کے حق کا استعمال کریں گے جن میں سے 15 لاکھ 90 ہزار مرد ووٹر ہیں  جبکہ 12 لاکھ 97 ہزار خواتین ووٹر ہیں۔ اس  الیکشن میں  45 عام نشستوں پر کل 724 افراد الیکشن میں لڑ رہے ہیں ۔  آزاد جموں و کشمیر کے اندر 33 حلقوں کے لئے 579 امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔  جموں و کشمیر کے مہاجرین کے 12 حلقوں سے 145 امیدوار باہم مقابل ہیں۔ 
اس الیکشن میں 5 بڑی پارٹیوں نے امیدوار کھڑے کیے ہیں ۔ پی ٹی آئی نے تمام 45 حلقوں سے امیدوار کھڑے کیے ہیں جبکہ  پیپلزپارٹی نے 44 اور مسلم لیگ ن نے 43 حلقوں سے پارٹی امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے ہیں۔ تحریک لبیک نے 39 ٹکٹ اور جماعت اسلامی نے 33 حلقوں سے ٹکٹ جاری کیے ہیں۔ مسلم کانفرنس نے بھی 42 حلقوں سے اپنے امیدوار نامزد کیے ہیں۔ 
آزاد کشمیر الیکشن پر نظر رکھنے والے سیاسی ماہرین کے مطابق اصل مقابلہ مرکزی تین جماعتوں کے درمیان ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن اس سے پہلے آزاد کشمیر میں اپنی حکومت بنا چکی ہیں ۔ پچھلے الیکشن میں گو کہ تحریک انصاف نے بھرپور حصہ لیا تھا اور اس وقت تحریک انصاف عوامی مقبولیت  کے لحاظ سے اپنی بلند ترین سطح پر تھی لیکن اس کو صرف دو نشستوں پر کامیابی ملی تھی۔ 
موجودہ الیکشن میں  ٹکٹوں کے مرحلے پر تحریک انصاف کو مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ تحریک انصاف کے پاس جو پارٹی لیڈر یا سابقہ ٹکٹ ہولڈر تھے وہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی نسبت کمزور تھے۔ اس لیے تحریک انصاف نے پی پی اور ن لیگ کے الیکٹ  ایبلز سے رابطہ کیا اور بہت سارے نئے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے جن کا اس سے پہلے کا سفر تحریک انصاف کے مخالف تھا جس سے کارکنوں اور مقامی لیڈروں میں کافی بد دلی پھیلی ہے۔ تحریک انصاف کی نسبت مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو ٹکٹوں کے مرحلے پر زیادہ پریشانی نہیں ہوئی البتہ کچھ تگڑے امیدواروں کا عین وقت پر تحریک انصاف  میں شامل ہونا مایوس کن ضرور تھا۔ 
تحریک انصاف نے پوری الیکشن مہم کو صرف ایک نقطہ پر منعظم کیا ہے کہ آزاد کشمیر کی یہ روائت رہی ہے کہ وہ اس پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں جو مرکز میں حکومتی پارٹی ہو۔  اور اس نقطے کو  لیکر باقاعدہ منعظم مہم چلائی جارہی ہے ۔ پی ٹی آئی نے ابتدائی طور بہت زبردست اور منعظم طریقے سے کام کیا ۔ تگڑے اور جیتنے والے امیدواروں کے حساب سے تحریک انصاف کو دونوں حریف پارٹیوں پر سبقت حاصل ہے لیکن  الیکشن مہم میں تحریک انصاف بہت پیچھے ہے۔ تحریک انصاف کے جلسوں میں حاضری مایوس کن ہے اس کے علاوہ تحریک انصاف کے کارکنوں میں بھی جوش نظر نہیں آتا۔ اس میں زیادہ ہاتھ تو ٹکٹوں کی تقسیم کے مسائل کے علاوہ علی امین گنڈا پوری کی انتخابی مہم بھی ہے۔ آزاد کشمیر کا خطہ شرح خواندگی  میں پاکستان میں سب سے آگے ہے۔ آزاد کشمیر کے لوگوں کا مزاج باقی پاکستان سے ذرا مختلف ہے۔ وفاقی وزیر نے جلسوں میں جس طرح کی زبان استعمال کی ہے وہ  کشمیر کے لیے کسی طرح بھی مناسب نہیں تھی۔ پیسے دینے کا معاملہ،  جلوس میں مخالفین کے پرامن احتجاج پر ہوائی فائرنگ  کی ویڈیو،  اور الیکشن کمیشن آزاد کشمیر کی طرف سے مقدمہ کے اندراج اور آزاد کشمیر سے بیدخل کرنے حکم نے تحریک انصاف کی پوزیشن پر بہت منفی اثر ڈالا ہے۔ اس کے علاوہ  آزاد کشمیر میں پچھلے 5 سال سے پارٹی کے معاملات بیرسٹر سلطان محمود دیکھ رہے ہیں اور وہ اپنے آپ کو اگلا وزیراعظم آزاد کشمیر دیکھ رہے تھے اور باقی پارٹی بھی یہی سمجھ رہی تھی لیکن اب تحریک انصاف  کی طرف سے ایک نیا امیدوار بھی سامنے آگیا ہے جو کشمیری لوگوں کے لیے تقریباً اجنبی ہے۔ اس کے ایک بھائی پہلے وزیراعلیٰ پنجاب کے مشیر ہیں۔ خود وہ بہت بڑے صنعت کار اور اسلاآباد میں ایک بڑے پلازے کے مالک ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ الیکشن مہم میں وہ پانی کی طرح پیسہ بہا رہے ہیں اور سلطان محمود کا نام اب وزیراعظم کی لسٹ سے خارج ہوچکا ہے۔ بیرسٹر سلطان محمود  کو اس طرح عین الیکشن مہم کے دوران پیچھے دھکیلنے سے سلطان محمود گروپ مایوسی کا شکار ہوچکا ہے۔ 
دوسری طرف پیپلزپارٹی نے شروع میں بہت جارحانہ مہم کا آغاز کیا لیکن بلاول بھٹو کا عین مہم کے دوران امریکہ جانے سے پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم کمزور ہوگئی ہے تاہم پارٹی کارکن مہم جاری رکھے ہوئے ہیں اور آصفہ بھٹو بھی اب آزاد کشمیر پہنچ چکی ہیں لیکن وہ صرف جلسے میں تقریر تک ہی محدود ہونگی۔
مسلم لیگ ن شروع میں کچھ مایوسی کا شکار تھی ۔  کچھ سابق وزرا اور  ممبروں نے جب تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تو تائثر پیدا ہوا کہ یہ لوگ اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے شامل ہوئے ہیں اور پاکستان میں یہ تائثر پختہ ہوچکا ہے کہ جس کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ ہو وہی کامیاب ہوتا ہے۔ مسلم لیگ ن کے صف اول کے لیڈران تک یہ کہتے سنے گئے کہ ووٹ تو نواز شریف کے ہیں لیکن جیتے گی تحریک انصاف،  لیکن مریم نواز نے کافی حد تک اس مایوسی کو امید میں بدل دیا ہے۔  مریم نواز نے جلسوں میں جارحانہ انداز اپنایا ہے جس سے مایوس کارکنوں میں لڑنے کا جذبہ پیدا ہوا ہے۔ دوسری طرف وہ سائیڈ لین ملاقاتوں میں بھی  ہر حلقے میں کارکنوں کو الیکشن کے دن کے حوالے ذمہ داریاں دے رہی ہے اور پنجاب سے سینکڑوں پارٹی عہدے دران کو کشمیر بلا لیا گیا ہے جن کو مختلف حلقوں میں مقامی عہدے داروں کے ساتھ ذمہ داریاں دی جارہی ہیں۔پولنگ ڈے پر دھاندلی کی صورت میں فوری ردعمل کے علاوہ منعظم احتجاج تک کی پالیسی پر بحث ہوچکی ہے۔ بہت سارے ایسے اشارے ملے ہیں کہ فوج آزاد کشمیر کے الیکشن میں عدم مداخلت کی پالیسی پر گامزن ہے۔ کچھ میڈیا شخصیات کے مطابق ایک وفاقی ایجنسی کے سیکٹر کمانڈر کو تبدیل کیا گیا ہے اور اس کو باقاعدہ اس بات پر چارج شیٹ کیا گیا ہے کہ اس نے آزاد کشمیر الیکشن میں ایک پارٹی کے ساتھ مل کر اثرانداز ہونے کی کوشش کی ہے۔ کچھ رپورٹس کے مطابق چیف آف آرمی سٹاف نے سختی سے نوٹس لیا ہے وہ اپنے ادارے کو سیاسی آلودگی سے باہر نکالنا چاہتے ہیں لیکن ایک ادارے کے سربراہ  الیکشن میں مداخلت کو باقاعدہ پالیسی کے طور پر چلا رہے ہیں۔ دونوں میں اس معاملے پر اختلاف کی بھی خبریں ہیں لیکن یہ غیر مصدقہ ہیں۔ 
مریم نواز کی  جارحانہ الیکشن مہم،  کارکنوں کا جوش جذبہ اور جلسوں میں حاضری دیکھ کر بہت سارے سیاسی تجزیہ نگار یہ کہنے لگے ہیں کہ اس دفعہ شاید مرکزی حکومتی پارٹی کے جیتنے والی روائت ٹوٹ جائے۔ اس الیکشن کا شفاف ہونا حکومت کے ساتھ ساتھ  مقتدر اداروں کے لیے بھی ضروری ہے۔ کشمیر کی صورتحال بھی اس بات کی متقاضی ہے کہ آزاد کشمیر میں حقیقی نمائندہ حکومت موجود ہو۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق  تمام پارٹیوں تک پیغام پہنچا دیا گیا کہ وہ کسی بھی قسم کی اور کسی بھی وقت کسی سرکاری یا خفیہ ایجنسی کے اہلکار کی طرف سے الیکشن کے کسی عمل پر غیر قانونی طور پر اثرانداز ہونے کی اطلاع سامنے آئے تو اس کو ہم تک ضرور پہنچائیں۔ 
آزاد کشمیر الیکشن بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ افغانستان کی صورت حال کی بدولت ان الیکشن کو بہت اہمیت حاصل ہوچکی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت جو عوامی سطح پر مہنگائی، بیروزگاری اور خراب کارکردگی کی وجہ سے عوامی دباؤ کا شکار ہے وہ اس الیکشن کو جیت کر اس عوامی دباؤ سے نکلنا چاہتی ہے۔ ن لیگ اپنے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کو عوامی سطح پر ثابت کرنا چاہتی ہے ۔ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے