![]() |
Day News Urdu |
مستقبل کا سیاسی منظرنامہ
موجودہ سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے غالب امکان یہ ہے کہ اگلے انتخابات اپنے وقت پر 2023ء میں ہونگے۔ اس لیے ابھی ان انتخابات میں بہت وقت پڑا ہے لہذا ابھی سے ان کے بارے کوئی پیش گوئی یا رائے دینا مشکل ہے۔ تاہم پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن نے ابھی سے ان انتخابات کی تیاری کا کام شروع کردیا ہے۔ ان پارٹیوں کی سرگرمیوں سے بخوبی اندازہ ہورہا ہے کہ مستقبل میں کیا ہوگا۔
اسلام آباد میں حکومت کی کرسی پر پہنچنے کی سیڑھی قومی اسمبلی میں اکثریت ہے۔ پیپلزپارٹی سندھ تک محدود ہے ۔ 65 جنرل نشستوں میں 20 کراچی کی نشستیں ہیں جہاں پیپلزپارٹی کی پوزیشن ماضی میں کافی کمزور رہی ہے۔ پیپلزپارٹی سندھ سے موجودہ حالات میں 30 سے 35 سیٹیں جیتنے کی پوزیشن میں ہے۔ باقی تینوں صوبوں سے پیپلزپارٹی کی یقینی سیٹ کوئی نہیں ۔ بلوچستان، کے پی کے اور جنوبی پنجاب سے چند سیٹیں لے سکتی ہے۔ پیپلزپارٹی اگلے انتخابات میں موجودہ تعداد سے کم سیٹیں لیتی نظر آتی ہے۔ پیپلزپارٹی کو اگر مرکز میں اقتدار پر پہنچنا ہے تو پنجاب سے اسے 30 سے 35 نشستیں جیتنی ہونگی۔ جس کے لیے پیپلزپارٹی نے کام شروع کردیا ہے۔ ن لیگ اور پی ٹی آئی کے ناراض الیکٹ ایبل سے رابطے کیے جارہے ہیں۔ جہانگیر ترین گروپ سے رانطے جاری ہیں۔ زرداری اور چوہدری پرویز الٰہی کی دو گھنٹے کی تنہائی میں ملاقات اسی پلاننگ کی کڑی تھی۔ پیپلزپارٹی آئندہ انتخاب ق لیگ کے ساتھ اتحاد میں لڑنا چاہتی ہے۔ ق لیگ اس وقت تحریک انصاف کی اتحادی ہے۔
تحریک انصاف کی بھی کم و بیش یہی پوزیشن ہے۔تحریک انصاف کی پنجاب اور سندھ سے جیتی گئی نشستیں حادثاتی یا کسی کی مہربانی تھی۔ تحریک انصاف کی خیبرپختونخوا سے 30 سے 35 محفوظ نشستیں ہیں۔ کراچی اور جنوبی پنجاب سے چند سیٹوں کی امید ہوسکتی ہے۔ اس لیے تحریک انصاف کو بھی پنجاب کی 148 جنرل نشستوں میں 30 سے 35 پر کامیابی ہر حال میں چاہیے۔ حکومتی کارکردگی، جہانگیر ترین فیکٹر اور ن لیگ کے ہوتے ہوئے بظاہر ناممکن نظر آتا ہے۔ اس لیے تحریک انصاف کی بھی نظریں چوہدری برادران پر ہیں۔ عمران خان نے اپنی جماعت پنجاب کی لیڈرشپ کے ساتھ چوہدری پرویزالٰہی سے طویل ملاقات کی ہےاور ذرائع کے مطابق مونس الٰہی کو کابینہ میں شمولیت کی دعوت دی گئی ہے جبکہ اس پہلے عمران خان مونس الٰہی کو کابینہ میں شامل کرنے پر تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔
ن لیگ کے ووٹ بینک کی بنیاد سینٹرل پنجاب ہے جہاں کی 110 سے 120 نشتوں پر وہ بہت مضبوط پوزیشن میں ہے۔ ن لیگ کی حکمت عملی پنجاب کے اندر اپنے الیکٹ ایبلز کو دوسری جماعتوں میں جانے سے روکنا اور ہر نشست پر مضبوط متبادل امیدوار تیار رکھنا ہے۔ مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک ہر طرح کے حربہ کے باوجود نہ صرف قائم ہے بلکہ پرجوش بھی ہے۔ الیکٹ ایبل جو اب ن لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاست کر رہے ہیں ان کے لیے کارکنوں کے دباؤ کی وجہ سے دوسری جماعتوں میں جانا مشکل ہے۔ ن لیگ کے ساتھ تسلسل کے ساتھ یہ واردات ہورہی ہے کہ عین ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت الیکٹ ایبلز دوسری جماعتوں میں شامل ہوجاتے ہیں یا کرائے جاتے ہیں۔ باقی صوبوں میں ن لیگ کی پوزیشن کافی کمزور ہے۔ اس کمزوری کو مدنظر رکھتے ہوئے ن لیگ اگلا انتخاب جمعیت علماء اسلام کے ساتھ اتحاد میں لڑنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ دونوں جماعتوں کا اتحاد خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سے 20 کے قریب نشستیں لے سکتا ہے۔
موجودہ صورتحال میں پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے لیے سب سے بڑا چیلنج ن لیگ کا پنجاب میں اپنی پوزیشن بہتر کرنا ہے۔ پیپلزپارٹی کے پاس جنوبی پنجاب کی چند سیٹوں کے علاوہ امیدوار بھی نہیں ۔ تحریک انصاف کے پنجاب سے موجودہ ایم این ایز میں سے چند ایسے ہیں جو اپنی سیٹیں اگلے انتخابات میں برقرار رکھنے کی پوزیشن میں ہیں ورنہ اکثریت گمنامی میں اپنا وقت پاس کر رہے ہے۔ن لیگ اپنے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کی وجہ سے خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں اور عوام کے لیے نہایت پرکشش اور اہمیت اختیار کرچکی ہے۔
موجودہ حکومت کی ناقص کارکردگی، مہنگائی، بےروزگاری اور ابتر معاشی صورتحال کی وجہ سے لوگ اس حکومت سے نالاں ہیں جس کا فائدہ ن لیگ کو ہورہا ہے۔
موجودہ سیاسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا کہ مستقبل مکمل طور ن لیگ کے حق میں ہے۔ اگر محکمہ زراعت نے چھاپے نہ مارے اور آخری دن الیلکٹ ایبلز نے ٹکٹ واپس نہ کیے اور آر ٹی ایس نہ بند ہوا تو ن لیگ کی جیت بہت واضع ہے۔
0 تبصرے