Header Ads Widget

Responsive Advertisement

سیاسی نفرت

 سیاسی نفرت

پاکستانی معاشرہ جہاں ہر شعبے میں زوال پذیر ہے وہی سیاست سے بھی باہم عزت و احترام،  ادب،  وضع داری اور سلیقہ سے بات کرنا نہ صرف رخصت ہوچکا ہے بلکہ اب تو  بات انڈوں، ٹماٹروں اور جوتوں تک پہنچ چکی ہے۔ 
90 کی دہائی تک سیاست ایک ایسا شعبہ تھا جس میں زیادہ تر نواب،  زمیندار اور بڑے خاندان تھے جن  کے اندر یہ مشترک تھی کہ ان کی زبان سے کبھی ایسے الفاظ نہیں نکلتے تھے جو ان کی خاندانی عزت و وقار کے لیے  باعث ندامت ہوتے۔ ان کے اندر آداب، شرافت،  باہم عزت و احترام اور وضع داری  کی صفات  ان کے لیے اور ان کے خاندان کے لیے باعث فخر ہوا کرتی تھی۔ 
سیاست میں بدتمیزی کے کلچر کی ابتدا تو ضیا دور میں شروع ہوئی جب بھٹو خاندان کے خلاف بات کرنے والوں کی حوصلہ افزائی مارشل لاء حکومت کی طرف سے کی گئی۔ ضیاء دور میں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سیاست دانوں کی بھرتی شروع کی گئی جس میں خاندانی سیاست دانوں کے بجائے  صنعت کاروں اور پیشہ ور طبقے سے  ایک سیاسی لاٹ سامنے لائی گئی۔ اس لاٹ کے پاس کوئی سیاسی اثاثہ یا حوالہ تو تھا نہیں اس لیے انھوں نے پرانے سیاستدانوں کے خلاف جلسوں میں نازیبا الفاظ استعمال کرکے اپنی سستی شہرت کا ذریعہ بنایا۔ موجودہ ن لیگ کے اکثر سیاست دان پیپلزپارٹی اور بینظیربھٹو کے خلاف گھٹیا اور بازاری زبان استعمال کرتے رہے ہیں۔  محترمہ بینظیربھٹو کے لیے پیلی ٹیکسی کے الفاظ اور پمفلٹوں کی تقسیم سے مسلم لیگ ن انکار نہیں کرسکتی۔ اس کے باوجود اس وقت کم سے کم یہ تکلف ضرور کیا جاتا تھا کہ جو اعلی اور ذمہ دار قیادت  ہوتی تھی وہ اپنے منصب اور مرتبے کو ملحوظ خاطر رکھتی تھی اور مخالفین پر گھٹیا تنقید اور لفظ باری کے لیے تیسرے درجے کی قیادت کو استعمال کیا جاتا تھا۔   ضیاء دور میں جو فارمولا نوازشریف کے ذریعے بھٹو خاندان کے خلاف استعمال ہوا تھا وہی فارمولا عمران خان کے ذریعے  شریف خاندان کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔ 
سیاسی وضع داری اور سیاسی اخلاقیات کو حالت نزع میں تو ن لیگ نے پہنچا دیا تھا لیکن اس کی مکمل تدفین عمران خان اور پی ٹی آئی نے کی ہے۔ عمران خان  کے لیے اپنا منصب اور مرتبہ بے معنی ہے اور نہ وہ اس تکلف میں پڑتے ہیں کہ میرا منصب اور موقع اس بات کی اجازت دیتا ہے یا نہیں، میرے مخاطب کی حیثیت اور عمر کیا ہے۔  سیاسی مخالفین کے بارے چور، ڈاکو، غدار،  ڈیزل،  حرام خور جیسے الفاظ کو تواتر  کے ساتھ استعمال کرکے انھوں باقاعدہ ایک ایسی نسل تیار کرلی ہے جس کو اب ان الفاظ کا نشہ ہوگیا ہے۔ وہ  نسل عمران خان سے حکومت میں بہتری نہیں چاہتی بلکہ عمران خان کے منہ سے شریف خاندان کے لیے گالیاں سننا چاہتی ہے۔ یہ نسل عمران خان سے مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ نہیں چاہتی بلکہ عمران خان  کے منہ سے شریف خاندان کے لیے توہین آمیز الفاظ سننا چاہتی ہے۔ عمران خان بھی اس نسل کی  نشہ کی عادت کو پورے کرنے کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہے۔ عمران خان  اس نسل کے نشہ کے لیے نیویارک میں ہزاروں پاکستانیوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں پاکستان واپس جا کر  جیل سپرنٹنڈنٹ کے ذریعے نوازشریف کے کمرے سے اے سی اتراؤں گا۔ وزیراعظم کے منصب پر فائز شخص کو کسی غیرملکی دورے کے دوران جیل میں قید کسی قیدی کے بارے بات کرنا یقیناً  نامناسب بات تھی لیکن اپنی تیار کردہ نسل کی نشہ کی ضرورت پوری کرنا بھی ضروری ہے۔ تحریک انصاف کا میڈیا سیل مسلسل شریف خاندان کے بارے گھٹیا مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔ 


گذشتہ روز آزاد کشمیر میں عمران خان نے نواز شریف کے نواسے اور مریم نواز کے بیٹے کے پولو کھیلنے پر تنقید کی اپنے طور عوام کو باور کروانے کی کوشش کی کہ پولو برطانیہ کے اندر مہنگا کھیل ہے اور صرف نواب کھیل سکتے ہیں۔ 
عمران خان کے لیے شریف خاندان ایک نفسیاتی مسئلہ بن چکا ہے۔  ان کو جہاں بھی تقریر کا موقع ملتا ہے وہ شریف خاندان کے خلاف کچھ نہ کچھ ضرور بولتے ہیں چاہے وہ سیرالنبی کانفرنس ہو یا کوئی فوج کی پاسنگ آوٹ پریڈ۔ 
عمران خان کا ایک ایسے لڑکے پر تنقید کرنا جو سیاست میں بھی نہیں اور  ابھی زیر تعلیم ہے خود عمران خان اور وزیراعظم کے منصب کی توہین ہے۔ وزیراعظم  پورے ملک  چہرہ ہوتا ہے اور اس کے منہ سے نکلا ہر لفظ  پوری دنیا میں نہ صرف رپورٹ ہوتا ہے بلکہ اس کے مختلف معانی اور مطالب نکالے جاتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان تو سیاست میں نفرت کو اس حد تک لے گئے ہیں کہ وہ قومی سلامتی جیسے معاملات پر بات کرنے کے لیے اس اجلاس میں نہیں آتے جس میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف یا بلاول ہو۔ مریم نواز نے جنید  صفدر پر تنقید پر کے جواب میں اگلے جلسے میں کہا کہ  جنید صفدر  تو پولو کھیل رہا ہے لیکن تمھارے بچے تو یہودیوں کے گھر پل رہے ہیں۔ جس پر جمائما کا ردعمل آیا اور پھر مریم نواز کا جواب۔ عمران خان کے  طرف سے جنید صفدر پر تنقید کے بعد لاکھوں لوگ جنید صفدر کو گوگل پر سرچ کرچکے ہیں۔ جس لڑکے کے بارے کوئی جانتا نہیں تھا  اس کو عمران خان نے راتوں رات  شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ ایٹمی ملک کا سربراہ یقیناََ کسی عام لڑکے پر تنقید نہیں کرسکتا۔
ہماری سیاسی قیادت کا دراصل مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس مسائل اور ان کے حل کے بارے بات کرنے کی اخلاقی جرأت نہیں ہوتی۔ جیسے مریم نواز آزاد کشمیر میں عوامی مسائل پر کیسے بات کریں کیونکہ ان کی جماعت وہاں پانچ سال حکومت کر چکی ہے،کسی مسئلہ کو اجاگر کرنے پر یہ سوال تو ضرور اٹھے گا کہ پانچ سال میں یہ کیوں حل نہیں ہوا۔ عمران خان کشمیر  کے جلسے میں کیسے مہنگائی، بیروزگاری یا کشمیر کے لیے کوئی بات کرسکتے ہیں جبکہ انھوں نے 3سال میں مہنگائی اور بیروزگاری کے ریکارڈ بنا دے ہیں اور کشمیر کے  متعلق ہر معاملے میں فیل ہوئے ہیں۔ اسی طرح  وفاقی وزراء کی اکثریت صرف اکیڈمک تعلیم کی حامل ہوتی ہے۔ جب وہ وزارت کے سربراہ بنتے ہیں تو مخصوص دفتری کلچر،ڈسپلن، اور دفتری زبان ان کے لیے بلکل ایک نئی چیز ہوتی ہے جس کی ان سمجھ نہیں آتی اور وہ ہر چیز وزرات کے بیوروکریٹس پر چھوڑ دیتے ہیں جو ان کو بریفنگز میں اعدادوشمار کے ایسے گورکھ دھندے میں ڈالتے ہیں جو ان کے سمجھنا ناممکن ہوجاتاہے۔ اب جب وہ عوام میں ٹی وی پروگرام میں آتے ہیں تو ان کو اپنی وزارت کا تو کچھ علم نہیں ہوتا لہذا وہ مخالفین کے خلاف تنقيد سے اپنا کام چلاتے ہیں۔ 
سیاسی نفرت میں میڈیا نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ میڈیا نے بڑے مخصوص اور پلاننگ کے ساتھ عوام میں پہلے سیاسی نفرت کی طلب پیدا کی ہے اور پھر سیاسی نفرت بیچی ہے۔  آخر اس پروگرام کی عوامی ریٹنگ زیادہ کیوں ہوتی ہے جس میں سیاست دان باہم دست و گریبان ہوتے ہیں۔ 
اینکر حضرات پروگرام میں شریک سیاست دان کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالیں۔ چینل بھی ان مہمانوں کو بلاتے ہیں جو بدتمیزی میں شہرت رکھتے ہوں۔ 
یہ سیاسی نفرت معاشرے میں بہت گہرے اثرات مرتب کر رہی ہے۔ ہمارا معاشرہ جو پہلے کئی طرح کی تقسیم کا شکار تھا اب اس میں سیاسی تقسیم  بھی شامل ہو گئی ہے۔ سیاسی پارٹیاں پوری دنیا میں ایک دوسرے پر تنقید کرتی ہیں لیکن یہ تنقید پالیسیوں اور ایشوز پر ہوتی ہے۔ 
اس اہم ایشو کا حل بھی سیاست دانوں نے خود تلاش کرنا ہے۔ اگر ان کا یہی وتیرہ رہا تو عوام میں سیاست دان کی وقعت ختم ہوجائے گی جو پہلے ہی کافی مشکوک ہوچکی ہے۔ اگر سیاست دان کی  عزت عوام کے سامنے نہیں ہوگی تو  پھر نہ تو ووٹ کو عزت مل سکتی ہے اور نہ ریاست مدینہ بن سکتی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے