Header Ads Widget

Responsive Advertisement

آزاد کشمیر الیکشن اور ایلیکٹ ایبلز



 آزاد کشمیر الیکشن اور الیکٹ ایبلز

آزاد کشمیر الیکشن کے بہت حد نتائج آچکے ہیں جس میں تحریک انصاف نے تقریباً سادہ اکثریت حاصل کر لی ہے۔ پیپلزپارٹی دوسرے نمبر اور پاکستان مسلم لیگ ن تیسرے نمبر پر ہے۔ ماضی کی نسبت اس الیکشن میں گرماگرمی بہت زیادہ تھی۔ ماضی میں کشمیر میں ہونے انتخابات ایک رسمی کارروائی کی طرح ہوتے تھے اور یہ بات گویا طے شدہ تھی کہ اسلام آباد  میں موجود حکومت کو آزاد کشمیر میں حکومت بنانے کا استحقاق  حاصل ہے۔ تمام جماعتیں رسمی سی مہم چلاتی تھی اور حکومتی پارٹی کے امیدوار آسانی سے جیت جاتے تھے۔ اس الیکشن میں صورتحال بلکل برعکس تھی۔  اس دفعہ تینوں بڑی پارٹیوں نے بہت سرگرم انتخابی مہم چلائی خصوصاََ مسلم لیگ ن کی نائب صدر  مریم نواز نے بہت بڑے جلسے کیے اور ن لیگ کو پوری طرح متحرک کیا۔ ماضی میں سب سے پرامن انتخابات کشمیر میں ہوتے تھے لیکن اس دفعہ ان انتخابات کو خونی انتخابات کا نام دیا جارہا ہے۔  لڑائی جھگڑے کے متعدد واقعات ہوئے جن میں تین قیمتی جانیں بھی  چلی گئی۔ 
آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کی جیت ہرگز ہرگز اس کی مقبولیت کی بدولت نہیں بلکہ انتخابی سیاست کے داؤ پیچ میں برتری کی بدولت ہے۔  پاکستان میں اقتدار کے حصول کی بنیادی  سیڑھی اسمبلی میں عددی اکثریت ہے۔  اس لیے پاکستان کی انتخابی سیاست میں حلقہ کی سیاست بہت اہمیت رکھتی ہے۔ حلقہ کی سیاست کے اپنے حقائق ہیں جن کو سمجھنا  اور مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے۔کسی حلقہ سے  کامیابی کے لیے سب اہم فیکٹر امیدوار ہوتا ہے۔ پاکستان کے ہر حلقہ  میں دو یا تین افراد یا خاندان انتخابی سیاست کے میدان کے شاہ سوار ہوتے ہیں جن کے لیے آج کل الیکٹ ایبلز کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ ان میں بھی درجہ بندی ہوتی ہے۔ الیکٹ ایبلز کی کوئی پارٹی نہیں ہوتی بلکہ ان کے مدنظر اپنا مفاد اور اپنی طاقت قائم رکھنا اور اس میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔  کسی بھی حلقہ میں پہلے نمبر جو الیکٹ ایبل ہوتا ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھتا ہے کیونکہ اس کا مفاد اسٹیبلشمنٹ سے جڑا ہوا ہے۔ اس لیے ہر الیکشن سے پہلے یہ الیکٹ ایبل ایک ایسی جماعت میں شامل ہوجاتے ہیں جس کے بارے تائثر یہ ہو کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی ہے۔ پاکستان کے الیکشن میں یہی سب سے بڑی دھاندلی ہے اور سیاسی پارٹیوں کی کمزوری اور مجبوری ہے۔ آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کا پہلا فیکٹر یہی تھا کہ ہر حلقہ میں جو پہلے نمبر پر الیکٹ ایبلز تھے وہ سب پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے کیونکہ کہ ان کو اپنا مفاد پی ٹی آئی میں نظر آرہا تھا۔ دوسرے اور تیسرے نمبر کے الیکٹ ایبلز  نے ن لیگ اور پیپلزپارٹی  کی ٹکٹ لے لی ۔  ن لیگ  5 لاکھ ووٹ لیکر 5 نشستیں جیت سکی کیونکہ اس کے امیدوار کمزور تھے جبکہ پیپلز پارٹی 3 لاکھ سے کم ووٹ لیکر بھی 11 نشستیں جیت گئی۔ 
مسلم لیگ ن کے ساتھ تواتر کے ساتھ یہی واردات ہورہی ہے۔ 2018 میں  بہت سارے ایسے الیکٹ ایبلز کو تحریک انصاف میں شامل کروایا گیا جو 5 سال مسلم لیگ ن کے اقتدار میں اپنے ذاتی ووٹ بینک اضافہ کرتے رہے اور الیکشن کے وقت پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے۔ گلگت بلتستان میں بھی یہی ہوا کہ ن لیگ کے آدھے سابق وزراء اور سابق  ممبران نے پی ٹی آئی شامل ہو گئے اور وہی جیت بھی گئے۔ اب کشمیر میں بھی یہی واردات دھرائی گئی۔ اب اس کو اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت قرار دیا جائے یا اس کو ایک سیاسی کلچر قرار دیا جائے کہ پورا  سیاسی نظام 200 کے قریب الیکٹ ایبلز کے ہاتھوں  یرغمال ہے۔ ہر پارٹی کو اقتدار کے لیے ان کی ضرورت ہے  ۔ یہی الیکٹ ایبل ن لیگ کو چھوڑ کر ق لیگ میں گئے تو ق لیگ کی حکومت بن گئی۔ ق لیگ کو چھوڑ کر پی پی پی میں گئے تو زرداری کی حکومت بن گئی۔ پی پی پی سے ن میں آئے تو ن لیگ کی حکومت بن گئی۔ ن لیگ سے پی ٹی آئی میں گئے تو پی ٹی آئی کامیاب ہوگئی۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی مسلسل کامیابی کی وجہ  اچھی حکمرانی نہیں بلکہ الیکٹ ایبلز ہیں۔ مسلسل اقتدار کی وجہ سے ہر صوبائی حلقہ میں پیپلزپارٹی کا الیکٹ ایبلز اتنا مضبوط ہوگیا ہے کہ وہاں دوسرے اور تیسرے نمبر کا الیکٹ ایبلز کا وجود ہی ختم ہوگیا ہے۔  سینٹرل پنجاب میں ن لیگ کی یہی پوزیشن ہے۔ 
ان الیکٹ ایبلز کا پارٹی منشور اور عوام سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ اس لیے جس پارٹی میں یہ الیکٹ ایبلز جاتے ہیں اس پر مکمل قبضہ جما لیتے ہیں اور پارٹی کا منشور  اور انتخابی وعدے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔
ووٹ کو عزت دینی ہے یا ریاست مدینہ بنانی ہے تو ان الیکٹ ایبلز کی طاقت کو ختم کرکے پارٹی کلچر کو مضبوط کرنا ہوگا۔ جب تک یہ 100 کے قریب الیکٹ ایبل  موجود ہیں دھاندلی بھی ہوگی اور الیکشن بھی چوری ہوتے رہیں گے۔ اصل اسٹیبلشمنٹ کا چہرہ یہ الیکٹ ایبلز ہیں

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے