Header Ads Widget

Responsive Advertisement

طالبان کابل سے صرف 50 کلومیٹر دور۔اے ایف پی

 
افغان طالبان۔ فائل فوٹو

کابل: افغان طالبان نے ہفتے کے روز کابل کے گرد اپنا  گھیرا تنگ کردیا ہے اور اپنی پوزیشن مضبوط کرتے نظر آئے۔ طالبان کی مسلسل جارحیت سے پناہ گزینوں نے کابل کا رخ کرلیا ہے اور کابل میں انسانی سیلاب آیا ہوا ہے۔اور امریکی میرینز ہنگامی انخلا کی نگرانی کے لیے واپس آگئے۔
 ملک کے دوسرے اور تیسرے بڑے شہروں کے طالبان کے ہاتھوں میں آنے کے بعد ، کابل حکومت  اور حکومتی افواج کے لیے آخری پناہ گاہ رہ گیا ہے اور افغان فورسز جو کہیں قابل ذکر مذاحمت نہیں کرسکی ان کے لیے یہ اب امتحان بن گیا ہے۔
 طالبان اب صرف 50 کلومیٹر (30 میل) کے فاصلے پر ڈیرے ڈال چکے ہیں ، امریکہ اور دیگر ممالک خوفناک حملے سے پہلے اپنے شہریوں کو کابل سے باہر لے جانے کے لیے بھاگ رہے ہیں۔

 امریکی سفارت خانے کے عملے کو حکم دیا گیا کہ وہ حساس مواد کو کاٹنا اور جلانا شروع کردیں ، کیونکہ 3 ہزار امریکی فوجیوں کی دوبارہ تعیناتی کے یونٹس ایئرپورٹ کو محفوظ بنانے اور انخلاء کی نگرانی کے لیے پہنچنا شروع ہوگئے۔

 کئی یورپی ممالک بشمول برطانیہ ، جرمنی ، ڈنمارک اور اسپین - سب نے جمعہ کو اپنے متعلقہ سفارت خانوں سے اہلکاروں کو واپس بلانے کا اعلان کیا۔

 ایک رہائشی خیرالدین لوگاری نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ کیا ہو رہا ہے۔

 اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ وہ طالبان کے زیر قبضہ علاقوں میں خواتین کے ساتھ خراب سلوک کی وجہ سے "شدید پریشان" ہیں۔

 گوٹیرس نے کہا ، "یہ خاص طور پر خوفناک اور دل دہلا دینے والی بات ہے کہ افغان لڑکیوں اور خواتین کے  لیے سخت قوانین کے نفاذ سے ان کے بنیادی حقوق صلب کیے جارہے ہیں۔

 طالبان کی پیش قدمی اور رفتار نے افغان حکومت اور امریکی قیادت کو حیران کر دیا ہے جس نے تقریبا  20 سال قبل 11 ستمبر کے حملوں کے بعد طالبان حکومت کو گرانے کے بعد ملک میں اربوں ڈالر خرچ کر ڈالے  اور باقاعدہ فوج کھڑی کی جو کہیں بھی طالبان کو روک سکی۔
 صدر جو بائیڈن کے حکم سے حتمی امریکی انخلاء سے کچھ دن  بعد  انفرادی ، یونٹوں اور یہاں تک کہ پوری ڈویژنوں نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں - طالبان کو پیش قدمی کے لیے اور بھی زیادہ گاڑیاں اور فوجی اسلحہ فراہم کر رہے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے