Header Ads Widget

Responsive Advertisement

اسلام آباد: اگر درست حکمت عملی بناتے تو آج نواز شریف چوتھی مرتبہ بھی وزیراعظم ہوتے۔ شہباز شریف

 

اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن)  اور میرے قائد نوازشریف ہیں۔ پارٹی کے تمام فیصلے اتفاق رائے سےہوتے ہیں۔ پارٹی کے اندر کوئی اختلاف نہیں۔

اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ  حمایت کے باوجود ملک کےحالات بہت خراب ہیں۔ صرف میڈیا کو مینیج کرکے اور ترجمانوں کے ذریعے گرد اڑائی جارہی ہے۔ ماضی میں کسی حکومت کو 30 فیصد بھی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہوتی تو ملک اب تک بہت آگے جا چکا ہوتا۔موجودہ   حکومت  عالمی برادری کے سامنے کشکول لے کر کھڑی ہے، مہنگائی، بیروزگاری اور لاقانونیت نے عوام کا جینا عذاب بنا دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ ریکارڈ کا حصہ کہ مجھے پرویز مشرف اور غلام اسحق خان نے وزیراعظم بنانے کی پیش کش کی تھی۔
کارگل کے معاملے میں نے نوازشریف کو مشورہ دیا تھا کہ پرویز مشرف کو امریکہ ساتھ لے کر جایا جائے لیکن کسی دوست نے مشورہ دیا کہ مشرف کو نہیں لے کر جانا چاہیے۔اقتدار پر قبضہ اور ہمیں جیلوں میں ڈالنے کا فیصلہ اکیلے مشرف کا تھا۔

شہباز شریف نے کہا کہ نواز شریف سے متعلق کہا جارہا ہے کہ ان کی صحت بلکل ٹھیک ہے،  حکومت بتائے کہ ڈاکٹر طاہر شمسی کو کراچی سے کس نے اور کیوں بلایا؟ 
نواز شریف کا علاج ہونا جو کرونا کی وجہ سے نہیں ہورہا ہے۔ ابھی ڈاکٹرز نے ان کو سفر کی اجازت نہیں دی۔
نواز  شریف نے دن رات محنت کرکے لوڈشیدنگ ختم کی۔ اگر ن لیگ مناسب حکمت عملی بناتی تو آج نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیراعظم ہوتے۔
مسلم لیگ ن کے صدر کا کہنا  تھا کہ ہم آج بھی اداروں کوعزت کی نگاہ سے  دیکھتے ہیں، نیب مجھے دودفعہ اپنا مہمان بنا چکی ہے، عمران خان کا  بس چلے تو ابھی یہی سے مجھے گرفتار کروا کر جیل میں ڈال دے گا۔
انہوں نے کہا کہ جب پی ڈی ایم  بنائی گئی تھی تو میں نیب کی جیل میں تھا اور جب  ٹوٹی تو تب بھی میں نیب کا مہمان تھا۔
میں بطور اپوزیشن لیڈر تمام سیاسی پارٹیوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتا ہوں۔ اگر اپنی سیاسی مجبوری کی وجہ سے باہر اکٹھی نہیں ہوسکتی تو کم از کم پارلیمنٹ میں اکٹھی چل سکتی ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے