![]() |
Afghan security forces -File Photo |
امریکہ نے دو دہائیوں کے بعد بہت ہی شرمناک طریقے سے افغانستان کو چھوڑا ہے۔ کابل سے اپنے سفارتی اہلکاروں اور دوسرے امریکی شہریوں اور امریکہ افواج کے افغان معاونین کے انخلا کے جو ایمرجنسی پلان ترتیب دیا ہے وہ امریکہ کی پریشانی کو ظاہر کرتا ہے۔
ملک کے اکثر شہروں اور دیہی علاقوں پر طالبان کا کنٹرول ہوچکا ہے اور افغان سیکورٹی فورسز بڑی حد تک شکست کھا چکی ہیں ۔ یہاں کچھ سوالات اور جوابات ہیں جو موجودہ صورتحال کی وضاحت میں مدد کر سکتے ہیں:
طالبان کی حکمت عملی کیا ہے؟
طالبان کبھی بھی اپنی اسلامی ریاست کے قیام کی بات سے پیچھے نہیں ہٹے ۔ انھوں نے اسی اسلامی امارت کی بحالی کی بات کی جو امریکی حملہ سے پہلے افغانستان میں طالبان نے قائم کی تھی۔ اسلامی امارات کی بحالی کے لیے سب سے پہلے امریکی فوجی بوٹ سے اپنی سرزمین خالی کرانی پڑی جو انھوں نے امریکی مفادات کے خلاف کام نہ کرنے کے معاہدے کر کے کی۔
معاہدے کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ واشنگٹن افغان حکومت سے ہزاروں طالبان قیدیوں کی رہائی دلوائے اور جن میں سے بیشتر رہائی کے فورا دوبارہ میدان میں شامل ہو گئے ہیں۔
پچھلے آٹھ دنوں میں حاصل کامیابیوں کے ساتھ اب طالبان کو اعتماد ہو سکتا ہے کہ وہ حکومت کو غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کا موقع دیں تو کابل ان کے حوالہ ہوسکتا ہے۔
اگر ایسا نہ ہوا تو پھر کابل کی طویل ناکہ بندی ہوسکتی اور بڑا حملہ بھی ہوسکتا ہے۔
افغان فوج کو کیا ہوا؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ فوجی تاریخ کا انہونا واقعہ ہے۔ ایک مکمل تربیت یافتہ اور جدید سازوسامان سے لیس فوج اتنی جلدی ایک غیر منعظم گروہ کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ اس پر ہزاروں کتابیں لکھی جائیں گی، سیمنار ہونگے، آرٹیکل لکھے جائیں گے بحث ہوگی۔ لیکن بدعنوان حکمران، لڑنے اور حملہ کے بجائے دفاعی حکمت عملی، امریکی راہنمائی کی چھتری سے محرومی افغان سرکاری فوج کی موت بن رہی ہے۔
کئی سالوں سے ، امریکی حکومت نے افغان سکیورٹی فورسز کے اندر وسیع پیمانے پر کرپشن کی رپورٹیں جاری کیں۔
کمانڈروں نے معمول کے مطابق اپنی فوجوں کے پیسے اپنے پاس رکھے، بلیک مارکیٹ میں ہتھیار فروخت کیے اور اپنی صفوں میں فوجیوں کی تعداد کے بارے میں جھوٹ بولا۔
افغان فوج امریکی انخلاء سے پہلے طالبان پر غالب صرف امریکی فضائی سپورٹ کی وجہ سے تھی۔ طالبان کے پاس فضائی حملوں سے نمٹنے کی بلکل صلاحیت نہیں ۔
افغان فورسز کی کو امریکی انخلا سے پہلے قیادت کا مسئلہ نہیں تھا لیکن اب سرکاری فوج کو زیادہ تر سیاسی مقامی بوڑھے کمانڈروں اور گورنروں کے حوالہ کردیا گیاہے ۔جنھوں فوج کو صرف اپنے گھروں اور سرکاری عمارات کی حفاظت پر لگا دیا ہے۔
امریکی تربیت یافتہ کمانڈو یونٹ امید تھے لیکن آخر میں وہ پوری لڑائی کو برداشت کرنے کے لیے کافی نہیں تھے ان کی تعداد محدود ہے۔
یہ جنگ کیسے ختم ہوگی؟
اس میں طالبان مکمل بالا دستی حاصل کرچکے ہیں۔ حکومت کے پاس صرف تین بڑے شہر کنٹرول میں رہ گئے ہیں۔ اور ان شہروں کی بھی لاجسٹک سپورٹ محدود ہوتی جارہی ہے۔ دن بدن حکومتی پوزیشن کمزور ہوتی جارہی ہے۔
طالبان تیزی سے کابل کی طرف بڑھ رہے ہیں جن کے مطابق ان کے جنگجو دارالحکومت کے شمالی اور جنوبی حصوں میں پیش رفت کر رہے ہیں۔
امریکہ اور عالمی برادری ممکنہ طور پر طالبان اور افغان حکومت پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ کسی قسم کے معاہدے پر پہنچ جائے۔
لیکن طالبان بالآخر تمام کارڈ اپنے پاس رکھتے ہیں۔
طالبان بہت بہتر انداز میں بات چیت اور طاقت کے اندھا دھند استعمال، دونوں کو خوبصورتی سے استعمال کر رہے ہیں۔
0 تبصرے