سوشل میڈیا پر ایک نجی ٹی وی چینل کی طرف سے لاہور میں کیے گئے ایک سروے کی رپورٹ گردش کر رہی ہے جس کے مطابق لاہور میں ن لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان انتخابی میدان میں کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔ رپورٹ کے مطابق 37% لوگ ن لیگ کو ووٹ کرنا چاہتے ہیں جبکہ 33% لوگ پی ٹی آئی کو ووٹ دینا چاہیں گے۔ سروے کے مطابق پچھلے سال ن لیگ لاہور میں 54% مقبول تھی اور پی ٹی آئی 19 % مقبول تھی۔ جبکہ اس سال مہنگائی کے باوجود پی ٹی آئی کی مقبولیت میں اضافہ اور ن لیگ کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ سروے رپورٹ کی سچائی اور درستگی پر تو سوال پیدا ہوسکتا ہے لیکن عوامی تائثر بھی یہی ہے کہ پی ٹی آئی مہنگائی، خراب کارکردگی کے باوجود جارحانہ سیاست کے ذریعے اپوزیشن کو دفاعی پوزیشن میں لا چکی ہے اور اپوزیشن خصوصاََ مسلم لیگ ن عوام کی ترجمانی کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔
اب یہ بات بلکل کھل کر سامنے آچکی ہے کہ 2017 میں نواز شریف کی اقتدار سے بیدخلی کے بعد سے مسلم لیگ ن دو متضاد بیانیوں اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور پرو اسٹبلیشمنٹ کے ساتھ سیاست جاری رکھے ہوئے ہے۔
اگرچہ نواز شریف کے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے نے مسلم لیگ (ن) کی سیاست پر غلبہ حاصل کر لیا ہے پنجاب کے نوجوان طبقہ نے بہت حد تک اس بیانیہ کو قبول بھی کرلیا ہے لیکن ان کے چھوٹے بھائی اور موجودہ پارٹی صدر شہباز شریف کی قیادت میں 'اعتدال پسند' نے کبھی یہ امید نہیں کھوئی کہ وہ انہیں اپنا محاذ آرائی چھوڑنے پر راضی کرنے اور قائل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ملک کو سیاسی استحکام اور امن کی طرف لے جانے کے لیے تمام 'اسٹیک ہولڈرز' ( مسلم لیگ (ن) اور اسٹیبلشمنٹ) کے درمیان عظیم الشان مکالمہ سے متعلق ایک حالیہ ٹی وی انٹرویو میں شہباز شریف کی تجویز اسی کوشش کا ایک حصہ تھا۔
آزاد کشمیر اور سیالکوٹ کے الیکشن میں بھرپور جلسوں اور مہم کے باوجود مسلم لیگ ن کی پی ٹی آئی کے ہاتھوں شکست سے پارٹی کے اندر سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کے حامی حلقوں کو نئی بحث چھیڑنے کا موقع ملا ہے اور اسے وہ اپنے موقف کے حق میں دلیل کے طور پیش کرنے لگے ہیں کہ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کی صورت میں عوامی حمایت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اس کے باوجود یہ ممکن نہیں کہ راتوں رات پارٹی اپنا موقف تبدیل کرلے گی۔ میاں محمد نواز شریف نے مفاہمت پسند حلقوں کو یہ کہ کر خاموش کردیا کہ ہماری جدوجہد چند حلقوں یا حکومت کے حصول کے لیے نہیں بلکہ عوام کے حق کے لیے ہے جس سے کسی بھی صورت پیچھے نہیں ہٹا جا سکتا۔
اس میں کوئی شک نہیں اور ملکی تاریخ بھی اس بات کی گواہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مرضی اور رضامندی کے بغیر حکومت نہیں بن سکتی۔ مسلم لیگ ن کے بہت سے راہنما یہ سمجھتے ہیں کہ 2018 کے انتخابات میں ان کو اسٹیبلشمنٹ نے دھاندلی سے ہرایا ہے اور اگر اسی طرح پارٹی کا اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ جاری رہا تو 2023 میں بھی اسٹیبلشمنٹ ان کو ہرا دے گی۔ ایسے حالات میں وہ حلقے کی سیاست کیسے جاری رکھ سکتے ہیں۔شہری علاقوں کی نسبت دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے سیاست دان اس صورتحال سے زیادہ پریشان ہیں جہاں انتخابی سیاست کا سارا دارومدار سرکاری دفاتر میں اثرورسوخ پر ہے۔ پارٹی کے موجودہ بیانیہ کی وجہ مسلم لیگی راہنماؤں کو سرکاری افسران کی طرف سے مشکلات کا سامنا ہے ۔
تاہم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ نوازشریف چوتھی مرتبہ بھی وزیراعظم بن سکتے تھے اگر پارٹی صحیح حکمت عملی اپناتی اور درست فیصلے کرتی۔ شہباز شریف نے غلط حکمت عملی یا غلط فیصلے کی وضاحت نہیں کی تاہم خیال یہ ہے کہ ان کا اشارہ اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کی طرف تھا۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور مریم نواز جس موقف کو لے کر چل رہے ہیں، اب بہت سارے پارٹی راہنما اس بیانیے سے کنارہ کش ہوتے نظر آرہے ہیں۔ ان راہنماؤں کے لیے مشکل یہ ہے کہ پنجاب کا ن لیگ کا ووٹر اور سپوٹر اس بیانیہ کو نہ صرف قبول کرچکا ہے بلکہ اب اس بیانیے سے پیچھے ہٹنے کو تیار بھی نہیں ۔ اس لیے میاں شہبازشریف، حمزہ شہبازشریف، سعد رفیق، ایاز صادق اور دوسرے لیڈران خاموش ہیں۔
مسلم لیگ ن موجودہ بیانیہ کے ساتھ الیکشن جیت کر حکومت بنا لے گی یہ ابھی بلکل بھی ناممکن نظر آرہا ہے۔اس کے لیے پارٹی کو مزید قربانیاں دینا ہوں گی اور لمبی جدوجہد کرنا ہوگی۔اب پارٹی کے لیے اپنے اصولی موقف سے پیچھے ہٹنا ناممکن ہوچکا ہے اور پارٹی کو اب اس مخمصے سے باہر نکل آنا چاہیے۔
0 تبصرے