آپریشن دوارکا
تاریخ حقیقی واقعات کے بیان کے ساتھ تاریخ لکھنے والے شخص کا خیال اور تجزیہ بھی ہوتا ہے جو وہ حالات و واقعات سے اخذ کرتا ہے۔ تاریخ لکھنے والا ہمیشہ اس بات کا بھی ضرور خیال رکھتا ہے کہ اس کے قارئین کیا کچھ پڑھنا چاہتے ہیں۔ تحریری تاریخ ہمیشہ وہی درست تسلیم کی جاتی ہے جو قارئین کے نقطہ نظر اور سوچ کے قریب ہو۔
قومی تاریخی واقعات کا بیان کرنا قوم کو حوصلہ دیتا ہے اور ان میں خود اعتمادی اور فخر کا احساس بڑھاتا ہے ۔تاریخ فریقین کے لیے آئندہ کے معاملات طے کرنے کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے۔ تاریخ کے تمام منفی اور مثبت پہلو ریاست کے لیے پالیسیوں کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ تاریخ میں ندامت اور فخر کے واقعات قوموں کے لیے سبق ہوتے ہیں جن سے قومیں سیکھتی ہیں۔ اس لیے ہمیشہ تاریخی واقعات کا بہت باریک بینی سے غیر جانب دار تجزیہ کیا جانا ضروری ہوتا ہے۔
تاریخ میں فوجی واقعات کا تجزیہ سب سے مشکل کام تصور کیا جاتا ہے۔ جنگی واقعات میں دونوں فریقین اپنی مرضی کے نتائج بیان کرتے ہیں جو وقت کے ساتھ تاریخ کا حصہ بن جاتےہیں۔ اسی طرح پاکستان اور بھارت کے مابین جنگوں کا تاریخی اورعلمی تجزیہ کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو فریقین کے نقطہ نظر اور واقعات کا بیان بہت حد تک مختلف ہوتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگی واقعات کی تاریخ تو بہت وسیع ہے لیکن میں اس تحریر میں آپریشن دوارکا جائزہ لوں گا۔
1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد سے پاکستان اور بھارت کے درمیان اثاثوں کی تقسیم کے حوالے سے واضح فرق تھا۔ فوجی اثاثہ جات کا بھی یہی حال تھا خاص کر بحریہ کے حوالے سے فرق بہت زیادہ تھا کیونکہ کراچی,چٹاگانگ کے علاوہ تمام بندگاہیں اور برطانوی انڈین بحریہ کے زمینی بیس ہندوستان کے پاس چلے گئے تھے۔
پاک بحریہ کو 2 سلوپس ، 4 فلیٹ مائن سوئپرز ، 4 ہاربر ڈیفنس لانچز ، 2 ٹرالرز ، 2 فریگیٹس کی شکل میں تھوڑا سا حصہ ملا جبکہ 180 افسران سمیت 3600 کے قریب اہلکار پاکستان کو حصہ میں ملے۔
1950 کی دہائی میں کمیونزم پر قابو پانے کے لیے SEATO اور CENTO کے تحت امریکہ اور مغرب نے پاکستان کو محدود فوجی امداد مہیا کی اور محدود بحری ساز و سامان کی خریداری اور فراہمی بھی ممکن ہوئی۔ اس کے باوجود 1964 میں پاکستان بحری بیڑے میں ایک آبدوز (سابقہ امریکی ٹینچ کلاس) کا اضافہ ایک قابل ذکر قدم تھا جو بعد انڈین بحریہ کی جارحیت کے سامنے بڑی رکاوٹ ثابت ہوئی۔ اس آبدوز کو "غازی" کا نام دیا گیا تھا ۔
پاکستان اور بھارت شروع سے آپس میں تنازعات کا شکار ہوچکے تھے اور ان میں دشمنی کی بنیاد پڑ چکی تھی۔فوجی سازوسامان اور افرادی قوت کے تقابل کرنے پر طاقت کا توازن بھارت کے پلڑے جاتا تھا جو پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے تشویشناک صورتحال تھی ۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور معاشی مسائل کی وجہ سے صورتحال مزید گھمبیر ہوگئی تھی۔
ایسے حالات میں 1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران آپریشن دوارکا کی مثالی کامیابی ایک ایسا واقعہ تھا جو پاکستان کی تاریخ کا قابل فخر حصہ بن گیا۔ جنگ کی شدت کے ابتدائی دنوں میں بھارتی بحریہ بنیادی طور پر مغربی پاکستان پر توجہ مرکوز کر رہی تھی جس نے پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ بحیرہ عرب میں اپنی سمندری حدود کے ساتھ ساتھ سی لائنز آف کمیونیکیشن (SLOCs) کو بلا تعطل تجارت اور تجارتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اندرونی آبی دفاع کو یقینی بنائے۔ اس کے علاوہ مغربی اور مشرقی پاکستان پر انڈین بحریہ کے حملے روکنے کے موئثر دفاعی لائن ترتیب دے۔ بنیادی طور پر یہ وہ کام تھے جو پاک بحریہ بھارت کے مقابلے میں نسبتا بہت کم وسائل اور بحری ٹیکنالوجی کے ساتھ انجام دے رہی ہے۔
ان مشکل حالات میں آپریشن دوارکا تمام رکاوٹوں اور بحری طاقت کے عدم توازن کے باوجود پاکستان نیوی کی ثابت قدمی اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی علامت بن کر ابھرا۔
دوارکا گجرات کا ساحلی شہر ہے جو نہ صرف مذہبی اور ثقافتی بلکہ عسکری لحاظ سے بھی ہندوستان کے لیے کافی اہم رہا ہے۔ وہاں ریڈار کی تنصیب تھی جو بھارتی فضائیہ کو پاکستان کے اہم ساحلی تنصیبات اور شہروں خاص طور پر کراچی پر حملے شروع کرنے کی رہنمائی کر رہی تھی۔ آپریشن دوارکا کا بنیادی مقصد بہت وسیع اور موثر تھا کیونکہ اس کا مقصد نہ صرف راڈار کو تباہ کرنا تھا بلکہ سابقہ بمبئی (اب ممبئی) بندرگاہ پر تعینات بھارتی جنگی جہازوں کو بحیرہ عرب میں آنے کے لیے اکسانا تھا جہاں پاکستانی آبدوز غازی ان کے انتظار میں تیار کھڑی تھی۔ اس وقت انڈین بحریہ کے پاس غازی آبدوز سے دفاع کے لیے کوئی ٹیکنالوجی موجود نہیں تھی ۔
یہ آپریشن 8 ستمبر 1965 کو شروع کیا گیا تھا اور اس میں پاک بحریہ کے سات جہاز شامل تھے جبکہ آبدوز کھلے سمندر میں انتظار کر رہی تھی۔ شناخت شدہ اور پہلے سے طے شدہ اہداف پر بمباری محض چار منٹ میں مکمل ہوئی۔
آپریشن دوارکا نہ صرف ایک بحری مشن تھا بلکہ اس کے مختلف پہلو بھی تھے۔ یہ پاکستان اور بھارت کے مابین باضابطہ بحری جنگ کا آغاز تھا اور پاک بحریہ کی شاندار کامیابی سے دشمن کو پاک بحریہ کے موڈ کا اندازہ ہوگیا تھا۔ اس آپریشن اور بحریہ کی بمباری سے تو شاید اتنا نقصان نہ ہوا ہولیکن اس آپریشن کے دور رس نتائج سامنے آئے۔ اس آپریشن کے بعد پاک بحریہ مسلسل انڈین پانیوں میں موجود رہی لیکن انڈین بحریہ اپنی بندرگاہوں سے باہر نہ نکلی۔ اس آپریشن کے بعد کراچی اور ہماری بحرہند میں تجارتی سپلائی لائن پر کوئی حملہ نہ ہوا۔
یہ آپریشن پاک بحریہ کی آپریشنل تیاری ، کوآرڈینیشن اور حملے کی طاقت کے لیے ایک لٹمس ٹیسٹ بھی ثابت ہوا کیونکہ اس نے جیسا حملے کا منصوبہ بنایا تھا ویسے اپنے منصوبے پر عمل کیا اور اپنے اہداف حاصل کیے۔ سب سے بڑھ کر آپریشن دوارکا نے بھارتی بحریہ کے حوصلے کو نمایاں طور پر کم کیا اور یہاں تک کہ ایک بھارتی جنگی بحری جہاز آئی این ایس میسور جو کہ قریب ہی میں تعینات تھا نے پاک بحریہ کے حملے کا جواب نہیں دے سکا تھا۔
اس آپریشن کی شاندار کامیابی نے پاکستان کی تاریخ کا ایک ناقابل یقین باب لکھا اور نہ صرف پاکستان بلکہ علاقائی سطح پر پاک بحریہ کی کامیابیوں کے پیش خیمہ ثابت ہوا۔
اس آپریشن نے بحری صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے جدید ٹیکنالوجیز کے حصول کے لیے دونوں ممالک کے درمیان مقابلہ کے آغاز کیا اور کئی نئے چیلنجوں کے دروازے کھول دیے۔
بھارت نے ریڈار کی تباہی یا دیگر شہری تنصیبات کے بڑے پیمانے پر نقصانات کی تردید کی لیکن اس آپریشن نے بھارت کے لیے ذلت کے ایسے سنگین نقوش چھوڑے جو ناقابل فراموش تھے اور آج تک بھارت کے لیے باعث ندامت ہیں۔
1971 میں آبدوز "غازی" وشاکا پٹنم کی بندرگاہ کے باہر بارودی سرنگیں بچھاتے ہوئے حادثہ کا شکار ہو گئی تو بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ اسے اس کی بحریہ نے نشانہ بنایا تھا۔
لیکن حقیقت یہ ہے پاک بحریہ کی آپریشنل مہارت اور آبدوز ٹیکنالوجی کا بھارتی بحریہ کے پاس اس کے برسوں بعد توڑ آیا تھا۔ 1971 میں بھارتی بحریہ کے پاس آبدوز کی پانی میں نشان دہی کرنا اور اسے نشانہ بنانے کی صلاحیت ہی موجود نہیں تھی۔
پاک بحریہ 8 ستمبر کو ہر سال اپنی فتح کے دن کے طور پر مناتی ہے اور اپنے افسران اور جوانوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہے جنہوں نے اس آپریشن میں حصہ لیا اور اس کامیابی سے ملک اور پاک بحریہ کا نام روشن کیا۔
پاک بحریہ نے بحر ہند کے علاقے میں خود کو ایک ذمہ دار اور موئثر بحری قوت ثابت کیا ہے۔ پاک بحریہ نے بحری امور کے متعلق کئی بین الاقوامی ایونٹ کی میزبانی کی ہے۔پاکستان نیوی ٹاسک فورسز کولیشن میری ٹائم کاؤنٹر ٹیررازم کمپین کے زون 150 ، 151 اور 152 میں تفویض کردہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کی وجہ دوسرے ممالک کی بحریہ کے ساتھ منسلک رہی ہے اور کئی دفعہ اس بین القوامی کولیشن کی کمانڈ بھی کر چکی ہے۔
اس کے علاوہ علاقائی بحری افواج کو تربیت اور آپریشنل مدد فراہم کرتی ہے اور 2018 سے ریجنل میری ٹائم پیٹرول (RMSP) کا آغازکیا ہے۔
اگر پاک بحریہ 1965 میں محدود بحری جہازوں کے ساتھ دشمن کی سرزمین پر کامیاب بحری حملہ "آپریشن دوارکا" کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی تو آج اس نے یقینی طور پر بہتر ٹیکنالوجی حاصل کر لی ہے، آپریشنل صلاحیتوں کو بہتر بنایا ہے ، تربیتی معیار کو بہتر بنایا ہے جس سے آج پاکستان بحریہ کے حوصلے 1965سے زیادہ بلند ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ دنیا بھی تبدیل ہو رہی ہے، بلا شبہ پاکستان نیوی اپنے وطن کا دفاع اور موجودہ وقت کے کسی بھی خطرے یا چیلنجز سے نمٹنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے اور قومی سلامتی کے لیے اس کا عزم انتہائی قابل تعریف ہے۔
keywords - Operation Dwarka, Pakistan Navy, urdu article, urdu news, geo news urdu, urdu news today, express news urdu
0 تبصرے