![]() |
History of tibb e unani |
طب یونانی ایک قدیم ترین انسانی صحت کو برقرار رکھنے کا طبی نظام ہے۔ زمانہ قبل مسیح لوگ بیمار ہونے کی صورت میں جادو ٹونےکے ساتھ جڑی بوٹیوں کا استعمال بھی رکھتے تھے لیکن اس کو عروج یونانیوں نے دیا۔ یونانی طبیبوں کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن جو پہلا نام طب کے آسمان پر چمکا وہ بقراط کا نام ہے۔ بقراط کو بابائے طب بھی کہا جاتا ہے۔ بقراط کے علاوہ جو یونانی نام مشہور ہوئے ان فیثاغورث، افلاطون اور جالینوس کے نام ہیں۔ جالینوس کو یونانی حکماء میں آخری نامور حکیم مانا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس علم کو عربوں نے اپنایا اور اسے عروج تک پہنچایا ۔ عربوں نے قدیم یونانی کتابوں کو عربی میں ترجمہ کیا اور کتابی علم کو عمل سے گزار کر اس کو مزید سنوارا۔یہ سہرا جن اطبا کے سر بندھا ہے ان میں جابر بن حیان، یوحنا بن ماسویہ، علی بن طبری، زکریا رازی، ابولقاسم زاہروی، ابن الہیثم، بوعلی سینا، داود انطاقی سمیت بے شمار نام ہیں
یونانی نظام طب کی بنیاد بقراط کے انسانی جسم میں چار مزاج کے نظریہ پر مبنی ہے یہ ایک ایسا تصور جو آیوروید کی بھی بنیاد بنتا ہے۔ یونانی فلسفی ایمپیڈوکلز (d. 430 BC) کے تمام مادوں (زمین ، پانی ، ہوا اور آگ) کی چار بنیادی جزوں کے خیال کو بیان کرتے ہوئے بقراط نے اس نظریہ کو پروان چڑھایا کہ انسانی جسم بھی 4 عناصر کا مجموعہ ہے ۔ چار عناصر آگ، پانی، مٹی اور ہوا ایک خاص تناسب سے انسانی جسم کا مزاج بنا رہے ہیں۔ ان عناصر کے عدم توازن کی وجہ سے انسانی مزاج بھی عدم توزن کا شکار ہوجاتا ہے۔ اسی عدم توازن کو بیماری کا نام دیا گیا ہے۔اسی طرح غذا کے استعمال سے پیدا ہونے والی خلتوں کے مزاج کا بھی تعین کیا گیا اور ان خلتوں خون ، بلغم ، زرد پت اور سیاہ پت کی درجہ بندی کی گئی۔ ان کا ماننا تھا کہ ہر فرد کی ان مزاج کی ایک الگ ساخت ہوتی ہے جس سے ان کے جسمانی مزاج کا تعین ہوتا ہے۔ یہ ان مزاج یا عناصر کا توازن ہوتا ہے جس کے نتیجے میں صحت کی اصل ساخت برقرار رہتی ہے۔ ان کی اصل ساخت میں کسی بھی قسم کا عدم توازن بیماری کا باعث بنتا ہے۔
مشرق کے سائنس دانوں نے جلدی محسوس کیا کہ فطرت نے تمام بیماریوں کا علاج فراہم کیا ہے اور یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ فطرت میں وافر تمام نامیاتی مادوں کی خفیہ علاج کی افادیت کو تلاش دیں۔ چنانچہ طب یونانی نے اس خیال پر ترقی کی اور جسمانی مزاج کے توازن کو بحال اور برقرار رکھنے کے لیے جڑی بوٹیوں اور دیگر نامیاتی مواد کی دواسازی پر توجہ مرکوز کی۔ اس نے دیسی اور غیر ملکی جڑی بوٹیوں ، جھاڑیوں ، معدنیات وغیرہ کی وسیع اقسام کا استعمال کیا ، جو بیماریوں کی ایک وسیع رینج کے علاج کے لیے وسیع پیمانے پر استعمال میں آئے ہیں۔
قرون وسطیٰ اسلام کی طبی روایت ہندوستان میں 13 ویں صدی تک دہلی سلطنت کے قیام کے ساتھ متعارف کرائی گئی تھی اور اس نے مغل سلطنت کے دوران کافی ترقی کی سشروت اور چاراکا کی ہندوستانی طبی تعلیمات سے متاثر ہوا۔ علاؤالدین خلجی (متوفی 1316) اپنے شاہی درباروں میں کئی نامور معالج (حکیم) تھے۔ یہ شاہی سرپرستی ہندوستان میں یونانی کی ترقی اور یونانی ادب کی تخلیق کا باعث بنی۔ ہندوستان میں طب یونانی کو فارسی یا اسلامی طریقہ علاج تصور کیا جاتا تھا جبکہ ہندوستان میں قدیم طریقہ علاج آریوویدک موجود تھا۔ مغلیہ دربار سے طب یونانی کے ماہر حکماء بھی موجود تھے اور آریوویدک کے بھی بڑے بڑے ماہر منسلک تھے۔ جس کی وجہ دونوں طریقہ علاج کے ماہرین کے تجربات سے کے تبادلے سے طب یونانی کے حکماء کے علم اور تجربہ میں مزید اضافہ ہوا۔
0 تبصرے